سورة الجاثية - آیت 16

وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب (١١) (تورات) حکومت اور نبوت دی، اور انہیں عمدہ چیزیں بطور روزی دی، اور (اس عہد کے) جہان والوں پر انہیں فضیلت دی

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بنی اسرائیل پر انعامات ف 1: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ہر طح کی نعمتوں سے مشرف فرمایا تھا ۔ انہیں تورات دی ۔ خاص لقمہ اور فصیل خصومات کی قابلیت بخشی ۔ اور نبوت کے فیض عمومی کو ان میں جمادی رکھا ۔ فراعنہ کے مال ودولت کا ان کو وارث بنایا ۔ اور من وسلویٰ ایسی لطیف چیزیں بلا محنت اور بغیر طلب کے ان کو دیں ۔ اور اس زمانے کے لوگوں پر ان کو فضیلت دی ۔ اور پھر اصل دین اور نفس شریعت سے ان کو آگاہ کیا ۔ ان کو بتایا ۔ کہ جہاں یہ صداقتیں پائی جائیں تم تسلیم کرو ۔ اور بغیر ادنی تامل اور جھجک کے اللہ کے پیغام کے سامنے جھک جاؤ۔ مگر ہوا یہ کو جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تسریف لائے ۔ اور آپ نے شریعت موسیٰ کی تکمیل کی ۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نبوت کے دروازوں کو بند کردیا ۔ اور فرمایا ۔ کہ میں وہی روح لے کر آیا ہوں ۔ جو سابقاً قوموں اور ملتوں کے لئے باعث حیات ثابت ہوئی ۔ میرے پاس وہی قانون اور فقہ ہے ۔ جو صحف انبیاء میں مذکور ہے ۔ مگر آخری تفصیلات کے ساتھ ، تم لوگ اللہ کے انداز بیان سے واقف ہو ۔ اس لئے تمہارا فرض ہے ۔ کہ مجھ پر ملانے میں سبقت کرو ۔ اور اپنی پاک نفسی اور مذہب شناسی کا ثبوت دو ۔ اور اللہ کی نعمتوں کا عملاً شکرادا کرو ۔ تو انہوں نے محض اس جان اور حسد میں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ باتیں کیوں کہی ہیں ۔ انکار کردیا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ نبوت محض بنی اسرائیل سے مختص ہے ۔ اور بنی اسمٰعیل کو یہ استحقاق نہیں ہے ۔ کہ وہ اس منصب جلیل کے عامل ہوسکیں ۔ فرمایا ۔ کہ اللہ تعالیٰ ان کو قیامت کے دن بتائیں گے ۔ کہ تمہارے مزعومات غلط تھے ۔ اور اسلام ہی ایک ایسا مذہب تھا ۔ جس کے ماننے والے آج میرے انعامات کے وارث ہیں *۔ حل لغات :۔ الحکم ۔ حکمت ۔ علم ۔ معاملات میں قطع عداوت کا سلیقہ * ابن الامر ۔ یعنی نفیس دین ۔ اور اصل دین * شریعۃ ۔ اسلوب ۔ ہدایت *۔