وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کو لہو و لعب کے طور پر پیدا نہیں کیا ہے
حل لغات :۔ بلوء ۔ آزمائش ۔ انعام *۔ ہم نے کائنات کو بلا مقصد نہیں پیدا کیا ف 1: مادیت کا نظریہ ہے ۔ کہ یہ کارگاہ حیات کا نتیجہ ہے ۔ محض بخت واخلاق کا اور مجازفۃ وتخمین کا ۔ یہ عالم حیات یونہی بلا کسی غرض اور غایت کے پیدا کردیا گیا ہے یا پیدا ہوگیا ہے ۔ اور اس کی تخلیق میں کسی اخلاقی ۔ نصب العین کو کوئی دخل نہیں ۔ قرآن حکیم اس نظریہ کی مخالفت کرتا ہے اور کہتا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو محض فعل عبث کے طور پر نہیں پیدا کیا ہے ۔ کہ اس کا کچھ مقصد بھی نہ ہو ۔ بلکہ ان کے بنانے میں حکمت ضرور ہے ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ زندگی کی تکمیل ہو ۔ اور انسان کو مواقع دیئے جائیں ۔ کہ وہ آخرت کے لئے تیاری کرے ۔ اور اپنی روح میں اتنی قوت اور بالیدگی پیدا کرلے ۔ کہ اس کو اللہ کا قرب حاصل ہو ۔ اس ضمن میں یہ واضح رہے ۔ کہ غرض اور مقصد کے دومعنی ہیں ۔ ایک تویہ کہ اللہ کو کائنات کے پیدا کرنے سے اپنی ذات کی تکمیل مدنظر ہے ۔ اور اس نے اس لئے انسان کو منصہ شہود پرجلوہ گر کیا ہے ۔ کہ اس سے اس کا کوئی اپنا مطلب نکلتا ہے ۔ اور ایک یہ کہ جہاں تک اس عالم پر غور کیا جاتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے ۔ انسان کو جو اتنی نعمتوں سے نوازا گیا ہے ۔ تو آخر فاطرالسموات کی طرف سے کچھ مطالبہ ہونا چاہیے ۔ جن کی تکمیل خود اس کے لئے مفید ہو ۔ ورنہ اتنا بڑا آسمان پیدا کرنا بےکار ہے ۔ یہ عریض اور وسیع زمین جو انسان کے پاؤں تلے بچھادی گئی ہے ۔ بےسود ہوگی ۔ اور یہ نجوم وکواکب جو اس کے لئے سرگرداں ہیں ۔ بےمعنے ہوں گے ۔ ذرا غور سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ غرض اور مقصد کی یہ دوسری تعبیر صحیح ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مفصل بالاغراض نہیں ہے ۔ ان کو اپنی ذات کی بلندی ورفعت کے لئے اس ساری کائنات میں کسی چیز کی بھی احتیاج نہیں ۔ یہ سب کچھ اگر فنا ہوجائے اور مٹ جائے تو اس کی عظمت اور جلالت قدر میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ اور وہ اپنی ذات میں بہمہ وجوہ کامل اور لائق ستائش ہے ۔ بہر آینہ ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے ۔ کہ انسان دنیا پر اس نقطہ نظر سے غور کرے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے کیوں اس کو پیدا کی ۔ اور اس کو بنی آدمی سے کیا توقعات ہیں ؟ کیونکر ایک دن مقرر ہے *۔ جب سب لوگ اس کے حضور میں جمع کئے جائیں گے ۔ اور ان سب سے پوچھا جائے گا ۔ کہ انہوں نے نفس حیات کو کس حد تک مفید بنانے کی کوشش کی ہے ۔ ان سے سوال کیا جائے گا ۔ کہ انہوں نے عمر عزیز کے لمحات گرانقدر کن مشاغل میں صرف کئے ہیں ۔ پھر اعمال کے اعتبار سے وہاں دو ہی جگہیں ہیں ۔ دوزخ جہاں بد عمل لوگ جائیں گے ۔ اور جنت جہاں باعمل اور صالح لوگ سکونت رکھیں گے ۔ اب سوچنا یہ ہے ۔ کہ تم اپنے لئے کس مقام کو پسند کرتے ہو ۔ جہنم کو جو مقام غضب وغصہ ہے ۔ جہاں زقوم کھانے کو ملے گا ۔ یا جنت کو جو جوار رحمت اور رافت ہے ۔ جہاں زندگی کے تمام تکلفات مہیا ہوں گے *۔ حل لغات :۔ کالمھل ۔ تیل کی تلچھٹ کی طرح *۔