يَغْشَى النَّاسَ ۖ هَٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
وہ لوگوں کو ڈھانک لے گا، یہ ایک دردناک عذاب ہوگا
دھوئیں کا عذاب ف 1: مکے والوں نے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام توحید کو ٹھکرایا اور انتہائی تحقیر وتذلیل کے ساتھ آپ کا خیرمقدم کیا ۔ تو اس وقت آپ کی زبان الہام ترجمان سے یہ کلمات بےاختیار نکل گئے ۔ کہ اے اللہ ان لوگوں پر اس قحط کا عذاب نازل کر جو تونے یوسف کے زمانہ میں نازل کیا تھا ۔ بس ان الفاظ کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے نکلنا تھا ۔ کہ اجابت نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ آسمان نے رحمت کے دراوزوں کو ان پر بند کرلیا ۔ زمین میں خشک ہوگئی ۔ اور قحط وجوع نے قریش کو آزمائش میں ڈال دیا ۔ اس قدر فاقے ہونے لگے ۔ کہ بھوک کے مارے ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے دھواں سا معلوم ہونے لگا ۔ زندگی کے لئے یہ لوگ مجبور ہوگئے ۔ کہ مردار کھائیں ۔ اور کتوں کے گوشت تک کو نہ چھوڑیں ۔ جب صورت حالات یہ ہوگئی ۔ تو اس وقت انہوں نے یہ محسوس کیا ۔ کہ یہ عذاب ہے ۔ اور ہماری بغاوت اور سرکشی کا نتیجہ ہے اس وقت ان کو ندامت ہوئی ۔ اور انہوں نے درخواست کی ۔ کہ ہم پرسے عذاب دور کردیا جائے ۔ ہم حق وصداقت کو تسلیم کرلیں گے ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان لے آئیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ یہ تو ہم کو معلوم ہے ۔ کہ یہ عذاب سے اس وقت ضرور متاثر ہوں گے ۔ مگر پھر سر کشی اور تمردان میں غور کرآئے بہر آئینہ ہماری رحمت کا تقاضا ہے ۔ کہ عذاب ان پر سے دور کردیں گے دیکھیں کہ یہ کہاں تک اپنے عہد کی پاسداری کرتے ہیں *۔ ان آیات میں اسی پیشیگوئی کی طرف اشارہ ہے ۔ اور لطف یہ ہے کہ یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئیں ۔ جب کہ یہ لوگ اپنے اولاد اور اپنی دولتمندی پر فخروغرور کا اظہار کررہے تھے ۔ کہ یہ اس طرح بھوک وافلاس سے دو چار ہوں گے *۔ حل لغات :۔ الذکری ۔ نصیحت پذیری * البطشۃ الکبریٰ۔ سخت پکڑ ۔ بہت بڑی گرفت ، یوم حساب سے تعبیر ہے * رھوا ۔ سکون کی حالت میں یعنی اپنی حالت پر * جند ۔ لشکر * عیون ۔ جمع عین ۔ چشمے *