لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ
اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا ہے، اور مارتا ہے، وہی تمہارا رب ہے، اور تمہارے ان باپ دادوں کا رب ہے جو ماضی میں تھے
ف 1: قرآن کا استدالال توحید کے متعلق یوں ہے کہ وہ خدا جو احیاواماتت پر قادر ہے ۔ جو زندگی کو موت سے بدل سکتا ہے ، اور موت کو زندگی کا لباس پہنا دیتا ہے ۔ وہی عبادت اور پرستش کے لائق ہے اور اسی کو تمہارے آباء علم پوجتے تھے ۔ آج تم کو جو اس کی ذات کے متعلق شکوک وشبہات ہیں ۔ تو وہ محض جہالت پر مبنی ہیں ۔ ورنہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے (جس کا) انکار ممکن ہی نہیں *۔ مادہ پرستوں کے پاس اس عقدہ کا جواب کوئی نہ تھا ۔ کہ عام میں زندگی کہاں سے آئی کیونکہ فی نفسہٖ اس چیز میں حیات کے کہیں عناصر نہیں ہیں ۔ یہ اپنے ہر مظہر میں اور اپنی ہر شکل میں بےجان ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے ۔ کہ اگر اس مشکل کو حل کرنا چاہتے ہو ۔ تو اس پر نظریہ کو تسلیم کرلو ۔ کہ اس کارگاہ مادی کے پس پردہ ایک روح جلیل کار فرما ہے ۔ جس کے علم اور حکمت کی وجہ سے یہ نظام برقرار ہے ۔ چنانچہ آج مادئیں نے بالآخر اس نظریہ کو مان لیا ہے ۔ کہ مادہ میں جو شعور وادراک ترتیب اور تعین ہے یہ ایک غبر مفہوم قوت کی طرف سے ہے جو یحی اور یمیت کی مصداق ہے ۔ جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں ۔ مگر یہ نہیں معلوم کہ وہ کیا ہے *۔ حل لغات :۔ یغرق ۔ یعنی یہ طے کیا جاتا ہے ۔ یہ واضح رہے کہ جہاں تک علم ازلی کا تعلق ہے اس میں تو کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ۔ اور وہ تو ہمیشہ سے بالکل یکساں حالت میں ہے البتہ اس کے ماتحت فرشتوں کو بتایا جاتا ہے ۔ کہ یوں انتظام وانصرام ہوگا ۔ تو اس میں ایک نوع کا تقرر وتعین ہوتا ہے ۔ جو ان کی سہولت اور آسانی کے لئے کیا جاتا ہے *۔