سورة الزخرف - آیت 32

أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپ کے رب کی رحمت (١٤) کو لوگوں میں یہ کفار تقسیم کریں گے، ہم نے ہی دنیاوی زندگی میں ان کی روزی ان کے درمیان تقسیم کی ہے، اور ان میں سے بعض کو بعض پر کئی درجہ رفعت و بلندی دی ہے، تاکہ ان میں سے بعض بعض کو اپنی ماتحتی میں رکھے، اور آپ کے رب کی رحمت و مہربانی اس مال سے زیادہ بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

نبوت خدا کی دین ہے ف 1: مکے والوں کو اس بات کی بہت جلن تھی ۔ کہ نبوت اور رسالت کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیوں منتخب کیا گیا ۔ حالانکہ مال ودولت اور دنیوی وجاہت وعظمت کے لحاظ سے ہم زیادہ استحقاق رکھتے تھے ۔ چاہیے تو یہ تھا ۔ کہ مکے اور طائف میں جو آدمی زیادہ وجیہہ اور زیادہ دنیوی مسرتوں کا حامل نظر آتا ۔ اس کے سر پر تاج نبوت رکھدیا جاتا ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ کہ ایک یتیم اور بےکس انسان کو اس عہدہ جلیلہ کے لئے کیوں چن لیا گیا ہے ؟ جس کے پاس دولت ہے نہ اعوان وانصار اور نہ وہ بڑے بڑے لوگوں کی صف میں شمار ہونے کے لائق ہے ۔ ارشاد فرمایا ۔ کہ نبوت اللہ کا انعام ہے اور ایک نوع کے بخشش اور دین ہے ۔ تم حسد کیوں کرتے ہو ۔ وہ جس کو چاہے اس منصب پر فائز کردے ۔ اور جس کو چاہے محروم رکھے ۔ یہ تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں ۔ جس طرح دنیا کے انعامات میں تفاوت ہے ۔ کوئی اہل ودولت کے انبار اپنے قبضہ میں رکھتا ہے اور کوئی نان شبینہ کا محتاج ہے اسی طرح ان بخششوں میں جس کا تعلق اقلیم روحانیت سے ہے ۔ تغاوت ہے کہ کچھ لوگ تو اس درجہ سعادتمند ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے مکالمہ اور گفتگو کا شرف حاصل ہے ۔ اور کچھ ایسے بدبخت اور محرومان ازلی ہیں کہ ان کے دامن میں سوائے کفر وحسد کے اور کچھ نہیں کائنات کا نظام اسی تنوع اور اختلاف پر قائم ہے ۔ ہاں یہ درست ہے کہ اس انتخاب کے لئے بھی کچھ معیار ہے اور ان معیاروں سے تم آگاہ نہیں ہو ۔ جس شخص کو تم حقیر سمجھتے ہو یہ ضرور نہیں کہ وہ اللہ کی نظروں میں بھی حقیر ہو ۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی مال ودولت پر فخر کررہے ہو ۔ وہ مال اس کے قدم چومے گا ۔ اور وہ اس کو کوئی اہمیت نہیں دے گا ۔ اپنے رفقاء اور دوستوں پر تمہیں ناز ہے ۔ مگر اس کے صحابہ خدائیت اور قربانی میں حیرت انگیز ابواب کا اضافہ کریں گے ۔ اور تاریخ ان کی مانند مخلص احباب پیدا نہیں کرسکے گی ۔ تمہیں اپنے اثرورسوخ پر غرہ ہے مگر جانتے ہو کہ مستقبل قریب میں اس کا قبضہ دلوں پر اور دلوں کی گہرائیوں پر ہوگا ۔ اور کروڑوں نفوس اس کے ساتھ عقیدت رکھنے کو مدار نجات قرار دینگے *۔ حل لغات :۔ سخریا ۔ محکوم *۔