وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور تم کمزور نہ (95) بنو، اور غم نہ کرو، اور اگر تم ایمان والے ہوگے تو تم ہی سب سے بلند ہوگے
انتم الاعلون : (ف ١) اس آیت میں مسلمانوں کو بشارت دائمی کی خبر سنائی ہے کہ مسلمان اگر مسلمان ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ کفر سے مغلوب رہے اور یہ اس لئے کہ اسلام نام ہی ایک ایسے زندہ طرز عمل کا ہے جو فلاح دارین کا کفیل وضامن ہے ، اس کے اصول اتنے پاکیزہ اور حیات بخش ہیں کہ مان لینے کے بعد علو واختیار کی تمام نصیحتیں از خود حاصل ہوجاتی ہیں ، مگر شرط وہی ایمان کامل ہے جس سے عمل پہیم الگ نہیں ، قرآن حکیم کی اصطلاح میں ” مومن “ صرف چند اصول وفروع کو مان لینے والے کا نام نہیں ‘ بلکہ ایسے زبردست خدا پرست انسان کا نام ہے جس کی رگوں میں خون کی بجائے اسلام کی کہریائی رو دوڑ رہی ہو ‘ جو بےچین اور مضطرب داغ دماغ کا مالک ہو ‘ جس کی عملیت فولاد کو برما دے اور پتھر اور چٹانوں میں جان پیدا کردے ‘ جو انتہا درجہ کا صابر ، منتظم اور باقاعدہ ہو جس میں پوری عسکری روح ہو ، جو دنیا کو تہ وبالا کردینے کا عزم صمیم اپنے اندر رکھتا ہو ‘ وہ نہ جامد اور غیر متحرک ہو جو غلام اور ذلیل ہو ‘ جس میں کوئی ارادہ نہ ہو اور جس کا ایمان منطقی حدود سے آگے نہ بڑھے ۔