وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
اور ان لوگوں نے ان کے پاس صحیح دین کا علم آجانے کے بعد، محض آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اختلاف (١٠) کیا، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے، ان کے بارے میں وقت مقرر تک تاخیر کا فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا، تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا گیا ہوتا، اور جو لوگ گذشتہ کافروں کے بعد اللہ کی کتاب (یعنی قرآن) کے وارث بنائے گئے (یعنی یہود و نصاریٰ یا کفار قریش) وہ لوگ اس کتاب کے بارے میں بڑے گہرے شک میں پڑے ہیں
اہل کتاب کی بددیانتی یعنی اہل کتاب خوب جانتے ہیں ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدق وحقانیت کا پیغام لے کر آئے ہیں ۔ ان پر تمام حجت ہوچکی ہے ۔ یہ تما صائیم ومعارف نبوت کو دیکھ چکے ہیں ۔ انہیں یقین ہے کہ اس میں کسی طرح کے شک وشبہ کو دخل نہیں ہے ۔ یہ محض ان کی ضد ہے ۔ غرور اور فخر ہے ۔ کہ حق کو اپنی صالح ونبوی کی وجہ سے نظرانداز کررہے ہیں ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات طے نہ ہوتی ۔ کہ قوموں کو ان کی تکذیب کا بدلہ قیامت میں دیا جائے گا ۔ تو یہ اپنی خیانت اور بددیانتی کی وجہ سے کبھی کے مٹ چکے ہوتے ۔ یہ تو اللہ کا کرم ہے ۔ کہ تما گناہوں کی سزا کو ایک مقرر دن کے اٹھا رکھا ہے ۔ ورنہ یہ ممکن تھا ۔ کہ قانون صدق وصفا یوں انکار کریں ۔ اور فطرت کے انتقام سے بچ جائیں ۔ فرمایا : ان کی اس بددیانتی کی وجہ سے مکہ والے پریشان ہیں ۔ کہ کیا کریں ۔ مانیں یا نہ مانیں ۔ جب یہ لوگ یہ دیکھتے ہیں ۔ کہ اہل کتاب کے علماء جو جانتے بوجھتے ہی وہ اسلام کی صداقتوں کو قبول نہیں کرتے تو پھر لازماً ان کے دلوں میں اس طرز عمل سے شکوک پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اس طرح ہدایت سے اور دور ہوجاتے ہیں *۔