وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی (٨٧) جنت میں رہو، اور اس میں سے جتنا چاہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ (٧٩) اور اس درخت کے قریب مت جاؤ، ورنہ ظالموں (٨٠) میں سے ہوجاؤ گے۔
(ف ٢) : پہلے انسان کی پہلی جگہ : قرآن حکیم ، انسانی خلافت ‘ انسانی علم کے بعد پہلے انسان کے لئے جو جگہ تجویز فرماتا ہے ، وہ جنت ہے یعنی رضائے الہی کا آخری مظہر ۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ انسان کی اصلی جگہ جنت ہے فطرت نے پیدا اسے اس لئے کیا ہے کہ وہ بارگارہ رحمت وفیض میں عیش وخلود کی زندگی بسر کرے ، چنانچہ ارشاد باری ہے کہ تم یہیں رہو ۔ مگر اس درخت کو استعمال میں نہ لانا ورنہ رحمت باری سے دور ہوجاؤ گے اور تمہیں کچھ عرصے کے لئے اپنے اصلی مقام سے الگ رہنا پڑے گا ۔ یہ قید اس لئے لگا دی تاکہ آدم (علیہ السلام) کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ بعض افعال کے ارتکاب سے ناراض ہوجاتا ہے ، اس کا خیال رہے یہی مطلب ہے اس حدیث کا ۔ ان الجنۃ حفت بالمکارہ “۔ یہ جنت میں آدمی ابتلاء وآزمائش میں پورا اترنے کے بعد جا سکتا ہے ، ان سب آیات سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا جو مرتبہ قرآن کے بیان کیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں مذکور نہیں ہے ، قرآن کہتا ہے پہلا انسان اللہ کا نائب ہے ۔ عالم اشیاء وحقائق ہے ، مکین جنت وفردوس ہے اور ساری کائنات کا مرکز مقصود ہے ، فرشتوں کا مسجود ہے ۔ (ف ١) آدم (علیہ السلام) بوجہ بشریت شیطان کے بھرے میں آگئے اور درخت کے متعلق انہیں غلط فہمی ہوگئی وہ نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھے کہ خدا کا منشاء کسی خاص درخت سے ممانعت کرتا ہے ، حالانکہ خدا کا منشاء مطلقا اس نوع کے اشجار سے روکنا تھا ، چنانچہ حضرت آدم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نیکی نیتی پر خدا نے شہادت دی ۔ (آیت) ” فنسی ولم نجدلہ عزما “۔ اس لئے یہ لغزش محض منشاء یا مفہوم کے اعتبار سے ہے ۔ الفاظ کی مخالفت نہیں ۔ حل لغات : تبدون وتکتمون : ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو ۔ مصدر ابدا وکتم ، سجدوا ، فعل ماضی مادہ سجدہ ، جھکنا ، اظہار تذلل کرنا ۔ ابلیس ، شیطان کا نام ہے ، ابلاس کے معنی ناکامی کے ہوتے ہیں ابلیس چونکہ خائب وخاسر شخص کا نام ہے اس لئے ابلیس کہا جاتا ہے ۔ رغدا : فراوانی ، بےکھٹکے ۔