فَإِن يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ۖ وَإِن يَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُم مِّنَ الْمُعْتَبِينَ
پس ! اگر یہ لوگ صبر کریں، تو بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور اگر (اللہ کو) راضی کرنا چاہیں گے تو انہیں (اس کی) رضا مندی حاصل نہیں ہوگی
برے دوست ف 1: یہ ایک انداز بیان ہے ان کے لئے برے ہمنشین مقرر کر رکھے تھے ۔ اور نہ مقصد یہ ہے کہ کہ ان کچھ ایسے یاران صحبت تھے ۔ جو اپنی گناہوں میں حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ اور ان کے اعمال بد کو سنوار سنوار کر پیش کرتے تھے ۔ جس سے ان کے دل میں احساس تک نہیں پیدا ہوتا تھا ۔ ورنہ خدا نہیں چاہتا کہ اس کے بندے گمراہ ہوں ۔ وہ ایک قلم رحمت ہے رمودت ہے اور راحت وشفقت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف اس بات پر اکتفا نہیں کرتا ۔ کہ انسان کو عقل سے بہرہ مند کردے اور پھر دوسرے ذرائع تربیت سے ہاتھ اٹھائے بلکہ وہ پیغمبر بھیجتا ہے ۔ توفیق ہدایت سے مشرف کرتا ہے ۔ معجزات ودلائل پیش کرتا ہے ۔ تاکہ اس کا بندہ محروم نہ رہ جائے ۔ ایسے شفیق اور رحیم خدا کے متعلق یہ خیال کرنا بھی کس قدر گناہ ہے ۔ کہ وہ بندہ ٹکا جلا نہیں چاہتا ۔ اس نوع کے اسلوب بیان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی مرحلہ میں بھی خدا کو نہ بھولے اور کسی منزل میں بھی اس کو فراموش نہ کرے ۔ اسی لئے اس طرح کی اشیاء کو بھی جو محض بالواسطہ ای کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں ۔ وہ اپنی جانب منسوب کرلیتا ہے *۔