وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ
اور کافروں نے کہا کہ جن باتوں کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو، انہیں سننے سے تو ہمارے دل دور پردوں میں چھپے ہیں، اور ہمارے کافروں نے کہا کہ جن باتوں کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو، انہیں سننے سے تو ہمارے دل دور پردوں میں چھپے ہیں، اور ہمارے کانوں میں بہرا پن ہے، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ایک اوٹ ہے، پس تم اپنا کام کرو، اور ہم اپنا کام کرتے ہیں
ہمارے دلوں پر دے پڑے ہیں ف 1: مکے والے جب قرآن حکیم کو سنتے تھے ۔ تو صاف طور پر اعلان کرتے تھے ۔ کہ ہمارے دلوں پر حسد اور تعصب کے پردے پڑے ہوئے ہیں جو حق وصداقت کی روشنی کو نہیں پہنچنے دیتے ۔ ہماری سماعت میں ثقل ہے ۔ جس کی وجہ سے ہم معذور ہیں ۔ کہ دلائل آیات کو نہ سنیں ۔ تمہارے اور ہمارے درمیان اختلافات عقائد کا انتا بڑا برزخ حائل ہے ۔ کہ متفق الرائے ہونا عملاً دشوار اور لامحال ہے ۔ اس لئے اب یہی بہتر ہے کہ تم اپنا کام کئے جاؤ۔ اور ہمیں اجازت دو ۔ کہ ہم اپنے مشاغل میں مصروف رہیں ۔ گویا ان کے نزدیک حضور کی کامیابی کے لئے کوئی امکان ہی موجودنہ تھا ۔ اور امکان کا کیونکر خیال ہوسکتا ہے ۔ جب کہ لوگ بات سننے کے لئے بھی تیار نہ ہوں ۔ جب مکان کے روشن دان بند کرلئے جائیں ۔ تو پھر دھوپ کیسے اندر پہنچ سکتی ہے ؟ جب کانوں اور دلوں پر جہالت وحماقت کے پہرے بٹھلا دیئے جائیں ۔ تو اس کے بعد پذیرائی کی توقع واقع مشکل ہے ۔ مگر یہ قرآن کا معجزہ ہے ۔ کہ باوجوداس تعصب وتاریکی انکات وتمرد کے ان کانوں میں داخل ہوا ۔ اور دل تک اتر گیا ۔ انہیں لوگوں نے قرآن کو سنا اور مجبور ہکر سنا ۔ حتیٰ کے یہی لوگ قرآن کے مبلغ بن گئے کیونکہ قرآن نے جو تعلیم پیش کی ۔ وہ حالات کے عین مطابق تھی ۔ وہ وقت کی کی آواز تھی ۔ اور ایک فطری ضرورت کی تکمیل تھی ۔ ان لوگوں کے لئے کوئی چارہ کار ہی نہ تھا ۔ بجز اس کے قرآن کے نوائے رحمت تلے جمع ہوجائیں ۔ اور اس کی صداقتوں پر ایمان لے آئیں *۔