سورة غافر - آیت 68

هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، پس جب وہ کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس سے کہتا ہے کہ ہوجا، پس وہ چیز ہوجاتی ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

مادہ کو قدیم ماننے کے نتائج (ف 1) کن فیکون کلمہ تکوین ہے ۔ یعنی جس وقت اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کافی ہے کہ وہ کن فیکون کہہ دے اور اس سے بھی مقصود یہ ہے کہ وہ جب پیدا کرنے کے درپے ہوتا ہے تو پھر اس میں خلاف نہیں ہوتا ۔ ادھر کہا اور ادھر وہ چیز کتم عدم سے نکل کر لباس وجود میں آگئی ۔ اسے نہ علت مادی کی ضرورت ہے اور نہ دیگر ذرائع اور وسائل کی ۔ وہ بمجرد اپنے ارادے کے صدہزار عوالم کون کو منصہ شہود پر جلوہ گر کرسکتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے ۔ عالم کی پہنائیوں پر اس کی حکومت ہے ۔ وہ ہم انسانوں کی طرح محتاج نہیں ہے کہ اسے درمیان کی منزلوں کو طے کرنا پڑے ۔ درحقیقت یہ اس کی ذات والا صفات کی بہت بڑی توہین ہے کہ اس کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ وہ بھی صرف موجودات میں تصرف کرسکتا ہے اور عدم کی ظلمتوں پر اس کی حکومت نہیں ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ مادہ بھی اپنے تقلبات میں قدیم ہے ۔ اور مخلوق نہیں ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ خدا اور مادہ دو مستقل چیزیں موجود ہیں فرق یہ ہے کہ خدا کو کچھ اختیارات ہیں اور مادے کو نہیں ہیں ۔ یہ نظر یہ اتنا ملحدانہ ہے کہ اس کو مان لینے کے بعد خدا کی عظمت دلوں پر برقرار نہیں رہ سکتی ۔ اور اس کے لازمی نتائج یہ ہوسکتے ہیں کہ (1) خدا صرف مصور ہے۔ (2) خدا مادہ کو فنا کردینے پر قادر نہیں ہے ۔ (3) بقاء وعدم میں مادہ اور خدا دونوں برابر کی قوتیں ہیں۔ (4) خدا مادہ کی فطرت کو نہیں بدل سکتا ۔ (5) وہ نقائص جو مادہ میں فطرتاً موجود ہیں ان کو دور کردینا خدا کے بس میں نہیں۔ (6) انسان میں جتنے نقائص ہیں وہ لابدی اور ناگریز ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان خیالات کی موجود گی میں پھر مذہب کی اور نفس دین کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ۔ ان خیالات کے ساتھ اتفاق کے معنی یہ ہیں کہ معاذ اللہ خدا کا درجہ محض برائے نام ہے ۔