قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۚ قَالُوا فَادْعُوا ۗ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
وہ محافظین جہنم کہیں گے، کیا تمہارے پیغامبر کھلی نشانیاں لے کر تمہارے پاس نہیں آئے تھے، وہ کہیں گے ہاں ! وہ محافظین کہیں گے، پھر تم خود ہی دعا کرو، اور کافروں کی دعائیں رائیگاں ہی جائیں گی
ف 1: غرض یہ ہے کہ وہ مقام ہوگا جہاں ارادت اور عقیدت کے تمام تعلقات منقطع ہوجائیں گے اور ہر شخص اپنی ذاتی ذمہ داری کو محسوس کرے گا ۔ اس وقت معلوم ہوگا ۔ کہ حاملین ملت ومقتدائے دین کس درجہ مکار تھے اور کیونکر کمزور استعداد کے لوگوں کو گمراہ کرتے تھے ۔ پھر جب یہ لوگ دیکھیں گے ۔ کہ یہ کبراء تو کچھ نہیں کرسکتے ۔ تو فرشتوں سے کہیں گے ۔ تم ہی ہمارے لئے تخفیف عذاب کی دعا کرو ۔ وہ کہیں گے اب تو دعا کا کوئی موقع ہی نہیں رہا ۔ کیا تمہارے پاس انبیاء ورسل نہیں آئے تھے اور کیا انہوں نے دلائل وشواہد سے تمہیں نہیں نوازا تھا ۔ تم نے اس وقت کیوں انکار کیا ۔ کیوں حق و صداقت کی تعلیم کو ٹھکرایا ۔ وہ جواباً کہیں گے ۔ یہ تو درست ہے ۔ کہ اللہ کے رسول آئے ۔ اور انہوں نے اپنا پیغام ہم تک پہنچایا ۔ یہ ہماری محرومی تھی کہ ہم ایمان کی دولت سے بہرہ مند نہ ہوسکے ۔ فرشتے کہیں گے کہ پھر تم خود ہی دعا کرو ۔ اور یہ معلوم ہے ۔ کہ کفار ومنکرین کی دعائیں محض بےاثر ہیں *۔ حل لغات :۔ فی ضلل ۔ یعنی معرض اندام میں یہ اس قبیل سے ہے کیدھم فی تضلیل *۔