سورة غافر - آیت 48

قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تکبر کرنے والے کہیں گے کہ ہم سب جہنم میں ہیں، بلا شبہ اللہ نے بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

عذاب قبر کا ثبوت ف 1: اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ موت کے بعد ہر انسان عالم قبر یا عالم برزخ میں رہتا ہے اور یہ حالت ایک نوع کی تنویمی حالت ہوتی ہے ۔ سابقہ اعمال کا اس عالم پر اثر ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شخص نیک رہا ہو ۔ تو یہاں اچھے اثرات کو محسوس کرتا ہے اور فرح ومسرت سے دوچار ہوتا ہے ۔ اور اگر اس نے دنیا میں برے اعمال کئے ہیں تو یہاں ان کو تکلیف کو محسوس کریگا ۔ یہ عذاب قبر ہے ۔ اس عقیدے کا ثبوت اس آیت سے ملتا ہے کیونکہ یہ مذکور ہے ۔ کہ فرعون اور آل فرعون کو صبح وشام جہنم کے سامنے پیش کیا جائیگا ۔ اور پھر جب باقاعدہ حساب و کتاب کی منزلیں طے ہوچکیں گی ۔ تو اس وقت ان کے متعلق کہا جائے گا ۔ کہ انہیں شدید ترین عذاب میں ڈال دو ۔ یہاں یعرضون کا لفظ یہ بتارہا ہے ۔ کہ یہ عذاب قبر صرف اسی شکل میں ہوگا ۔ کہ یہ لوگ اپنے عذاب کو دیکھ دیکھ کر چلیں گے ۔ اور روحانی اذیت محسوس کریں گے ۔ گمراہ کن کبراء دین قیامت کایہ پہلو بالکل عجیب ہوگا ۔ کہ وہ لوگ جن کو ضعیف الاعتقاد حضرات بزرگان کرام سمجھتے تھے ۔ اور جن کی وجہ سے انہوں نے حق وصداقت کی آواز کو سنا تھا ۔ وہ بھی وہاں جہنم میں ہونگے ۔ یہ مریدان عقیدت مندان سے کہیں گے کہ دنیا میں تو ہم لوگ تمہارے تابع تھے ۔ ہم نے اپنی عقل وخرد کو تمہارے ہاتھ بیچ رکھا تھا ۔ آج ہمیں اس عذاب سے بچاؤ۔ اور اپنی مشیخیت کا ثبوت دو ۔ وہ کہیں گے آج وہ تمام پروہ ہائے چاک ہوچکے ہیں ۔ اور معلوم ہوچکا ہے ۔ کہ یہاں ہم اور تم دونوں برابر کے مجرم ہیں ۔ دونوں دوزخ میں ہیں ۔ اللہ نے اپنا منصفانہ فیصلہ صادر فرما دیا ہے اب نہ ہم بچ سکتے ہیں اور نہ تم *۔ حل لغات :۔ عدوا وعشیا ۔ بااعتبار کے صبح وشام * الصعفوء آ ۔ جو اپنی رائے نہیں رکھتے ۔ اور دین کے معاملہ می اپنے مشائخ مذہبی کے تابع ہیں *۔