سورة غافر - آیت 21

أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا انہوں نے زمین کی سیر (١٢) کرکے دیکھا نہیں کہ ان کافروں کا کیا انجام ہوا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں، وہ لوگ ان سے زیادہ طاقت والے، اور زمین میں اپنے آثار کے طور پر زیادہ عمارتوں اور قلعوں والے تھے، پس اللہ نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں پکڑ لیا، اور اللہ سے ان کو بچانے والا کوئی نہیں ملا

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: قابل غور چیز یہ ہے ۔ کہ کیونکر انسان ان پتھروں اور زید و روح کے لاشوں کو خدا سمجھ لیتا ہے ۔ اور کس طرح ان کی عبادت میں اسکو روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے ۔ حالانکہ نہ یہ اس کی باتوں کو سن سکیں اور نہ ان کے نعمتہائے عقیدت سے واقفیت حاصل کرسکیں ۔ جو خدا ہماری آواز کو نہیں سنتا ۔ اور ہمارے دلی جذبات کو نہیں جانتا ۔ وہ کیونکر خدا ہوسکتا ہے ؟ ہم تو فطرتاً ایسا خدا چاہتے ہیں ۔ جو غموں اور مصیبتوں میں بغیر نالہ وفریاد اور شیون وبکا کے ہماری دستگیری کرے ۔ اور ہمیں روحانی تسکین عطا کرے ۔ جو براہ راست ہمارے کلیجے کے داغہائے الم کو دیکھتا ہو ۔ اور ہماری پردرد آواز کو سنتا ہو ۔ اور کیوں یہ فرض کرلیتے ہیں ۔ کہ یہ پتھر پسجیں گے اور اپنی غیر معمولی قدرتوں سے ان کی مشکلات کو دور کریں گے ۔ حالانکہ وہ پتھر ہیں ۔ بےجان ہیں اور بےحس ہیں ۔