فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ
پس تم لوگ اللہ کو اس کے لئے بندگی کو خالص کرکے پکارو (٩) چاہے کفار برا مانیں
دعوت توحید ف 1: قرآن حکیم بطور مدار و مرکز کے جس مسئلہ کا ذکر کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ تمام عالم انسانی احساس مجد کے اس اصول سے براہ راست واقفیت پیدا کرے اور یہ تے کرلے کہ زندگی کی تمام تگ ودو میں اس اصول کو ملحوظ رکھا جائیگا کہ ہم ساری کائنات سے افضل ہیں ۔ اور رب اکوان ہمارا خدا ہے ۔ اسی کی بادشاہت ہے ۔ اور وہی بالا اور برتر ذات ہے ۔ اس عقیدہ یقینا یہ نتیجہ ہوگا ۔ کہ نفس میں وہ تمام خود داری اور رفعت کے جذبات پیدا ہوجائیں گے ۔ جن پر مضبوط اور صالح زندگی کا انحصار ہے ۔ توہمات مٹ جائیں گے اور ہر شخص اپنے میں ایک روحانی قوت اور طاقت محسوس کریگا ۔ ایک نوع کی بالیدگی اور ارتقاء پائیگا ۔ اور پھر ہینت اجتماعیہ کی شکل اس انداز میں ہوگی کہ ہر شخص مساوات اور محبت کے حقوق سے یکساں بہرہ مند ہوگا ۔ جب ہر شخص بطور عقیدہ کے سمجھ لیگا ۔ کہ ہم سب ایک ہی خالق اور آقا کے بندے ہیں ۔ اور وہ آقا بلاتفریق سب کا پروردگار ہے ۔ تو دنیا میں فضیلت جنسی کا امتیاز اٹھ جائیگا ۔ کالے اور گورے میں کوئی فرق نہیں رہیگا ۔ مشرق اور مغرب کے پلے برابر ہوجائیں گے اور اس طرح نوع انسانی بہت بڑی سعادت کو حاصل کرلیگی ۔ قرآن حکیم بار بار ، اس تصور کو پیش فرماتا ہے اور کہتا ہے ذرا غور تو کرو ۔ کیا وہ تمہیں اپنی نشانیاں نہیں دکھاتا ہے ۔ اور کیا اسی کے ہاتھ میں تمہاری ضروریات کی تکمیل نہیں ہے ؟ وہی تمہیں رزق بہم پہنچاتا ہے ۔ اور وہی تمہاری روزی کا سامان مہیا کرتا ہے ۔ مگر اس سادہ حقیقت کو بھی سمجھنے کے لئے جذبہ رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے ۔ اگر طبیعت میں صلاحیت ہو انابت ہو ۔ اور حق کی طرف میلان ہو ۔ تو پھر انسان کا لامحالہ اس حقیقت پر ایمان ہوگا ۔ کہ سمجھے گا ۔ کہ خدائے آسمان وزمین ہماری ضروریات کا متکفل ہے ۔ ورنہ ہدایت کا حصول سخت مشکل ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ میری عبادت خلوص اور دیانت سے کرو اور اس استحکام وعزیمت کے ساتھ کہ منکرین کی مخالفت سے تمہارے عقیدوں میں تزلزل پیدا نہ ہوسکے ۔ حل لغات :۔ رفیع الدرجات ۔ کے معنی جہاں خود بلند مرتبت ہونے کے ہیں ۔ وہاں یہ بھی ہوسکتے ہیں ۔ کہ وہ اللہ اپنے بندوں کے درجات روحانی میں اضافہ کرتا رہتا ہے ۔ اور ان کے مرتبوں کو بڑھاتا رہتا ہے *۔