وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن (٤٢) ہوجائے گی، اور اعمال نامے رکھے جائیں گے، اور انبیاء اور شہداء لائے جائیں گے، اور ان کے درمیان عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا
ف 3: یعنی اس وقت جب سب حضرات اللہ کے حضور میں پیش ہوں گے ۔ دنیا اس کے نور سے چمک اٹھے گی ۔ ف 1: قیامت کے دن صحائف اعمال کو پیش کیا جائیگا ۔ اور ایک ایک سے اس کے اعمال کے متعلق پوچھا جائیگا ۔ اور گو ان کے اعمال کے موافق انکو جزا اور سزا دی جائیں گی ۔ اور کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا * یہ آیت جہاں تک سیاق وسباق کا تعلق ہے ۔ یکسر عرصہ محشر کی کیفیت احتساب سے لعلق رکھتی ہے ۔ اس سے نبوت جدیدہ پر استدلال کرنا ۔ قرآن کے بیان سے اعراض کرنا ہے اور معاذ اللہ یہ کہنا ہے کہ قرآن کی دو آیتوں میں بھی باہمی ربط نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ قبضتہ اور بیمینہ کے الفاظ محض تمثیل کے لئے ہیں ۔ ورنہ اس کی ذات اعضاوجوارح سے متصف نہیں * فصعق سے مراد موت کی بےہوشی ہے *۔