سورة الزمر - آیت 10

قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجئے، اے میرے اہل ایمان بندو ! اپنے رب سے ڈرتے (٩) رہو۔ جو لوگ اس دنیا میں اچھے کام کریں گے، انہیں آخرت میں اچھا بدلہ ملے گا، اور اللہ کی زمین کشادہ ہے، بے شک (اللہ کی راہ میں) صبر کرنے والوں کو ان کے صبر کا بےحساب اجر دیا جائے گا

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

وطن اور مسلمان (ف 1) اسلامی نقطہ نگاہ سے ملک اور وطن دراصل کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ اسلام جس چیز کو زیادہ قابل اعتبار سمجھتا ہے وہ عقیدہ ہے اور زندگی کا وہ تصور ہے جو فلاح وسعادت کا ضامن ہے ۔ کیونکہ وطنیت اور قومیت سے جغرافیائی اور نسلی امتیاز وغیرہ پیدا ہوتا ہے اور امن عالم کے لئے اس سے زیادہ کوئی چیز خطرہ کا باعث نہیں ہے کہ انسانوں کا کوئی گروہ اس غیر حقیقی تغیرات میں الجھ کر عناد وتعصب کا موجب بن جائے ۔ اسلام چاہتا ہے کہ عقیدے کی حمایت میں ہر مصیبت کو برداشت کیا جائے۔ حتی کہ وطن کی آسائش اور آسودگیاں بھی۔ اس وقت کے اعلان پر پابندیاں عائد کردی جائیں ۔ قرآن کہتا ہے کہ ساری دنیا کے باشندے تمہارے بھائی ہیں ۔ اگر وہ تمہارے مذہب میں کوئی مزاحمت نہیں کرتے ۔ تم زمین کے کسی گوشہ میں جاکر آبادہ ہوجاؤ۔ مگر اپنے مذہب اور کلچر کی حفاظت کرو ۔ اور اگر تمہارے ملک میں اور تمہاری اپنی حکومت میں بھی تمہارے عقائد خطرہ میں ہیں تو پھر یہ حکومت اور یہ زمین یک قلم چھوڑ دینے کے لائق ہے ۔ اس سے یہ مقصود نہیں ہے کہ مسلمانوں کو اپنے وطن سے محبت نہیں ہوتی یا ان کے نزدیک وطن کی خدمت کرنا گناہ ہے ۔ بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وطن کی خدمت بدرجہ ثانوی ہے ۔ اول درجے میں انسانیت ہے ۔ اور ایک وسیع وحدت ہے جس کا وجود کائنات کے لئے خیروبرکت کا باعث ہے مسلمان جب یہ دیکھے کہ اس کے فرائض وطنی عالمگیر اسلامی وحدت کے منافی نہیں ہیں اور وطن کو اس کی خدمات کی اور قربانیوں کی ضرورت ہے تو پھر اس کا فرض ہے کہ دلیرانہ ان فرائض کو انجام دے ۔ اور اگر وہ یہ دیکھے کہ خدمت وطن کا جذبہ اس کے حسیات دینی پرچھارہا ہے ۔ تو پھر اس کے لئے یہی راہ ہے کہ وہ تمام کائنات اسلامی کے بھلے کے لئے محدود وطنی تعصب سے باز آجائے ۔ مگر اس میں بھی مرتبہ ومقام کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ غلاموں کو یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ بین الاسلامی اخوت کے نام پر آزادی اور حریت کی تحریک سے الگ رہیں ۔ کیونکہ اس صورت میں یہ محض فریب نفس ہوگا اور ایک قسم کا دھوکہ غلام قوموں پر سب سے پہلے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بندگی اور غلامی کی زنجیروں کو بالکل کاٹ کر پھینک دیں ۔ اور اس کے بعد میں اسلامی اخوت کی تشکیل اور تعمیر میں ہوں ۔