إِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ
سوائے اس کے جو جہنم میں جانے والا ہے
خدائے خیر اور خدائے شر ف 1: قرآن حکیم میں تمام عقائد باطلہ کی تردید موجود ہے ۔ جو اس وقت رائج تھے ۔ اور یا ان کے مقبول ہونے کا مستقبل میں کوئی امکان تھا ۔ گو بظاہر صرف اہل کتاب اور مشرکین کو زیادہ تر مخاطب فرمایا ہے لیکن اگر غور وتعمق سے دیکھا جائے ۔ تو اس کتاب معرفت میں تمام مذہبی اور دینی تصورات کی توضیح اور تردید موجود ہے ۔ عربوں میں ایک عقیدہ اس وقت یہ موجود تھا ۔ کہ دنیا کے دو الگ الگ خدا ہیں ۔ ایک خیر کا خدا ہے جس سے سوائے حسن وجمال کے اور بھلائیوں کے اور کسی بات کا صدور نہیں ہوتا ۔ دوسرا شر کا خدا ہے ۔ جس سے مفاسد اور مضرات پیدا ہوتے ہیں ۔ اس طرح وہ یہ سمجھتے تھے ۔ کہ علم کلام کا یہ معرکہ الآراء مسئلہ حل ہوجاتا ہے ۔ کہ جب وہ حسن مطنق ہے ۔ اور جمال خالص ہے ۔ تو پھر دنیا میں دکھ ۔ تکلیف اور برائی کا وجود کیوں ہے ۔ اور کہاں ہے ۔ یہ خیال مجوس عجم نے عربوں میں پھیلایا تھا ۔ اور عربوں میں عقلیت پسند گروہ نے اس عقیدے کو اپنایا تھا ۔ اس بنا پر وہ شیاطین کو بھی قابل احترام سمجھتے تھے ۔ کیونکہ ان کی رائے میں ان کالاہوت کے ساتھ گہرا اور عمیق تعلق تھا ۔ اور دنیا میں جتنی برائیاں ہیں ۔ ان کا منبع ومصدر یہی جنات شر تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ ان کا یہ عقیدہ سر اسر غلط ہے ۔ وہ اہر منی قوتیں جن کو یہ خدا سمجھتے ہیں ۔ اللہ کے ماتحت ہیں اور قیامت میں ان کو اس کے حضور میں پیش کیا جائے گا ۔ اس کی ذات ہر عیب اور نقص کی بات سے پاک ہے ۔ یہ نقائص اور مضرات ومفاسد جو ان کو نظر آتے ہیں ۔ ان کو معلوم نہیں ۔ کہ نفس کائنات کے وجود کے لئے ان کا ہونا کتنا ضروری ہے ۔ یہ ان اشیاء کو محدود نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اگر یہ نظروں میں وسعت پیدا کریں ۔ اور ایک ایسی نظر کائنات کو دیکھیں جو اس کی تمام وسعتوں پر حاوی ہو ۔ تو انہیں معلوم ہو ۔ کہ عالم ہمہ خیر وجمال ہے اور نقص وعیب بینی نظر کی کوتاہیوں میں ہے ۔ عالم کون مکان میں نہیں *۔ حل لغات :۔ سلطن مبین ۔ یعنی کھلی اور واضح دلیل ۔ جو عقل وخرد پر قبضہ جماسکے * نسبا ۔ رشتہ * یہ فرشتوں کا کلام ہے *۔