أَذَٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ
کیا یہ مہمانی بہتر ہے یا زقوم کے درخت (١٦) کی
جنت کی زندگی ف 1: جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ گذشتہ آیتوں میں ہوا ہے ۔ یہ ان انعامات کے مقابلہ میں جو ہونے والے ہیں وہ تو ایسی پاکیزہ کامل اور پر سعادت زندگی ہے کہ اس کی صحیح صحیح کیفیت سے اس دنیا میں واقف ہونا ناممکن ہے ۔ محلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قوۃ اعین ۔ یہ محض سمجھانے کے لئے لفائذ کے بعض پہلو ایسے بیان فرمادیئے ہیں جن سے ہم اصل حقیقت کا کچھ کچھ اندازہ کرسکتے ہیں ۔ اور سمجھ سکتے ہیں ۔ کہ جب ادنیٰ ضروریات حیات کو اللہ تعالیٰ نے اس حسن وخوب کے ساتھ پورا کیا ہے تو وہ روحانی حاجات زندگی جو کہیں بیش قیمت ہیں ۔ باحسن وجوہ پوری کی جائیں گی ۔ جب کھانے پہننے اور اٹھنے بیٹھنے کا یہ اہتمام ہے تو پھر وہ سعادتیں جن کا تعلق روح کی آسودگی اور بالیدگی کے ساتھ ہے کس درجہ توجہ کی محتاج ہیں ۔ ان نعمتوں کی تفصیل سے غرض یہ نہیں ہے کہ بس یہی جنت ہے بلکہ وہاں بےشمار احوال مسرت واجتہاج ہیں کہ جن کا اس وقت پورا اندازہ ہونا ناممکن ہے ان کے تذکرہ سے مقصد صرف یہ ہے کہ آپ جنت کے ذرا قریب ہوسکیں اور وہاں کی عظیم القدر زندگی کی ایک جھلک دیکھ پائیں ۔ جو لوگ ان نعمت ہائے گوناگوں کو سن کر اور ان انعامات بوقلمون کو پڑھ کر محض اس بنا پر جنت کا انکار کردیتے ہیں ۔ کہ صاحب یہ تو محض مادی خواہشات کی تکمیل کا سامان ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ضمیر کو دھوکہ دیتے ہیں اور بہت فریب نفس میں مبتلا ہیں ! اگر یہ لوگ دل کی گہرائیوں کو ٹٹولیں یہ تو ان کو معلوم ہو کہ ہمیں سوائے ان خواہشات کی تکمیل کے شوق کے اور کچھ موجود ہی نہیں ہے ۔ صراتاً انسان یہی کچھ چاہتا ہے ۔ اور ساری عمر اپنی چیزوں کے لئے کوشاں رہتا ہے پھر جب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ دیکھو اگر تم دنیا میں نیک رہے اور ہمارے قانون کو تم نے اپنا نصب العین بنایا ۔ تو ہم تم کو وہ سب کچھ دینگے جن کے لئے تم حیات چند روزہ میں مصروف جدوجہد رہتے ہو ۔ تو اس میں انکار کی کون وجہ ہے جب یہی چیزیں دنیا میں تمہاری ساری تگ ودو کا دارومدار اور محور رہیں ۔ تو اب تمہیں خوش ہونا چاہیے ۔ کہ اللہ نے تمہاری ان خواہشات کو بعینہ پورا کردیا ہے ۔ یہ کہ ان کو سن کر تمہارا توازن فہم اپنے مرکز سے ہٹ جائے ۔ اور تم اس پر اعتراض کرنے لگو ان آیات میں اہل جنت کے مطالبات اور ان کی مسرتوں کا ذکر ہے ۔ کہ کیونکر یہ لوگ اپنے کو جنت میں پاکر شکر و اطمینان کا اظہار کرینگے ۔ حل لغات : الدینون ۔ ہم مفعول ہے دین سے متعلق ہے جس کے معنے جزا کے ہوتے ہیں * سواء الجحم ۔ جہنم کا وسو * لیردین ۔ ارادہ سے ہے بمعنی ہلاک کرنا ۔