سورة يس - آیت 73

وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ان کے لئے ان چوپایوں میں دوسرے منافع اور پینے والی چیزیں ہیں، کیا پھر بھی وہ شکر گذار نہیں ہوں گے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پیغمبر شاعر نہیں ہوتا ف 2: چونکہ فطرت کے ترجمان تھے ۔ اس لئے آپ کو پیغام دیا گیا وہ باوجود بلاغت وفصاحت کے اعلیٰ ترین درجہ میں ہونے کے نثر میں نظم وشعر میں نہیں تھا ۔ کیونکہ نثر اظہار مدعا کا فطری طریقہ ہے جس میں قافیہ اور ردیف کا تکلف نہیں ہوتا ۔ صرف مقصود بالذات معانی اور مطالب ہوتے ہیں ۔ الفاظ نہیں ہوتے اور شعر پیر آئینہ ایک قسم کا تصنع ہے ۔ جو باوجود اپنے تاثر اور موسیقی کے نثر کا اس اعتبار سے ہم رتبہ نہیں ہے کہ اس کا حسن وجمال وزن اور قافیہ کار میں منت ہے اور نثر کا حسن اپنا ذاتی حسن ہے ؎ تکلف سے بری ہے حسن ذاتی نبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے شعر اور نغمہ سے اس لئے بھی انبیاء کو مناسبت نہیں ہوت ۔ کہ ان کا پیغام صرف قلب اور دل میں ایک کیف پیدا کرنے کے لئے نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ عمل کی تمام قوتوں کو بیدار کیا جائے ۔ شعر سن کر تاثر تو طاری ہوتا مگر عمل کے لیے تحریک نہیں ہوتی ۔ بےاختیار دل یہ تو چاہتا ہے کہ اس کے حسن کی داد دی جائے ۔ مگر یہ اکثرہوتا ہے ۔ کہ وہ جہاد اور سخت کوشش پر آمادہ کرے *۔ اس آیت میں جو نفی ہے ۔ وہ تصنع اور اختلاف کی نفی ہی حکمت وبلاغت کی نفی نہیں ہے یعنی یہ صحیح نہیں ہے کہ پیغمبر شاعر نہیں ہوتا ۔ مگر اس معنے یہ نہیں ہیں کہ اس کے کلام میں شاعرانہ فضیلتیں نہیں ہوتیں ۔ قرآن حکیم کو ہی دیکھئے کہ گو نثر میں اسے مگر فصاحت وبلاغت میں دنیا کے سارے ذخیرہ شعر پر بھاری ہے ۔ کون ہے جو اس کو سنے اور متاثر نہ ہو *۔ حل لغات :۔ فیھا منافع یعنی حیوانات میں ان عام فوائد کے علاوہ اور بھی بہت سے فوائد ہیں ۔ آج اس لفظ کی تشریح ہمارے ساتھ ہے ۔ کہ دنیا میں کتنی کارآمد اور قیمتی چیز ہے ۔ اور تمدن انسانی میں اس کا کیا درجہ ہے ؟ رمیم ۔ بوسیدہ ۔ کہنہ *۔