يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
افسوس ہے ایسے بندوں (١٦) پر کہ جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انہوں نے اس کا مذاق اڑایا
(ف 1) غرض یہ ہے جب انکار وسرکشی کی سزا ہلاکت ہے اور اقوام وملل کی تاریخ بتارہی ہے کہ جب بھی اللہ کے پیغام کو ٹھکرایا گیا ہے موت اور تباہی نے آگھیرا ہے ۔ اور ناممکن ہے کہ کوئی گروہ اللہ کے اس قانون مکافات سے بچ سکے اور جب یہ بھی صحیح ہے کہ سب لوگوں کو خدا کے حضور میں پیش ہونا ضرور ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے ۔ تو پھر اس کفر کا فائدہ؟ کیوں نہ سب لوگ اس کی چوکھٹ پر جھکیں اور اس کی عظمت کا اقرار کریں ؟ کیوں نہ اس کے رسول کو عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھیں ۔ اور اپنی زندگی سنوار لیں ۔ کیوں نہ ایسا ہو کہ سب لوگ ایک رنگ میں نظر آئیں ۔ سب خدا کے پرستار بنیں ۔ سب کے دلوں میں خدا کی محبت ہو۔ سب اسی سے ڈریں ۔ اور اسی سے ہر طرح بھلائی کی امید رکھیں ۔