سورة آل عمران - آیت 81

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب اللہ نے نبیوں سے میثاق (61) لیا کہ میں تمہیں جو کچھ کتاب و حکمت دوں، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو تمہاری چیزوں کی تصدیق کرے، تو اس پر ضرور ایمان لے آؤ گے، اور اس کی ضرور مدد کروگے، اللہ نے کہا کہ کیا تم لوگوں نے اقرار کرلیا اور اس پر میرا عہد قبول کرلیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے اقرار کرلیا۔ اللہ نے کہا، پس تم لوگ گواہ رہو، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

نبیوں علیہم السلام کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ف ١) تمام نبیوں علیہم السلام کا دائرہ تبلیغ عام انسانوں تک ہے اور وہ صرف اس حد تک مکلف ہیں کہ وضیفہ رشد وہدایت کو مفروضہ قوم کے لئے جاری رکھتیں ، یعنی سب کے مخاطب عام انسان ہیں جن کو ان پر ایمان لانا ضروری ہے ، مگر پیغمبر کون خواجہ عالم وعالمیان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت عام انسانوں سے گزر کر انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی ضروری ہے ، اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام کو عالم برزخ میں پیدا کیا گیا تو ان سے کہا گیا کہ باوجود اس کتاب وحکمت کے جو تمہیں دی گئی ہے ‘ تم پر لازم ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منصہ شہود پر آئیں تو ان پر ایمان لاؤ اور ان کی نصرت میں اقدام کرو ، سب نے کہا منظور ہے اور ہم اس حقیقت نیرہ کے شاہد وگواہ ہیں ، گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو مانا جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبروں کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نبیوں کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغمام تمام صداقتوں کا حامل اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت تمام انبیاء کی مصدقہ ہے ۔ بات یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جس قدر انجم فلک کائنات پر جلوہ گر ہوئے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کا اعلان تھے اور اس کتاب ہدی کا مقدمہ یا دیباچہ تھے جو حضرت انسان کو عنایت ہونے والی تھی ، جس طرح سپیدئہ سحری صبح جان نواز کا پیشہ خیمہ ہوتی ہے ، اسی طرح سابقہ نبوتیں پہلے پیغام ‘ سب اس نبی اکبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خاتم پیغمبران کی تمہید سمجھئے یا سرمانہ خط ۔ وہ جو مقصود حاصل ہے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات بالشمائل ہے یہی وجہ ہے کہ تمام سابقہ کتابوں میں اس محبوب اصل کے خدوخال کا ذکر پایا جاتا ہے ، کہیں اسے ” سرخ وسفید “ کہا گیا ہے کہیں ” فارقلیط “۔ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ۔ کہیں ” آتشیں شریعت کا پیش کرنے والا “ کہا گیا ، کہیں صاف صاف ” محمدیم “ کہہ کر ہر شبہ کو اڑا دیا گیا اور ہر پردہ کو چاک کردیا ۔ مگر باجود اس وضاحت اور صراحت کے بعد طبیعتیں ایسی ہیں جو بجز انکار اور سرکشی کے کسی چیز پر قانع نہیں ہوتیں ۔ فرمایا وہ لوگ جو آفتاب عقل کی درخشانی کے بعد بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماننے میں متامل ہیں ‘ ان سے زیادہ بدقسمت اور فاسق کون ہے ؟ حل لغات : اقررتم : مصدر اقرار بمعنی ماننا ، اعتراف کرنا اور قبول کرلینا ۔ اصر : عہد قول ۔