سورة فاطر - آیت 43

اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ایسا انہوں نے زمین میں اپنے کبر و غرور اور بری سازشوں کی وجہ سے کیا، حالانکہ بری سازش ہمیشہ سازشیوں کے ہی گلے کا پھندا بن جاتی ہیں، پس کیا یہ لوگ اقوام گذشتہ کی مانند عذاب کا انتظار کر رہے ہیں، پس آپ اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے، اور نہ آپ اللہ کے طریقے کو ٹلنے والا پائیں گے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 2: وہ سب سے بڑا گناہ جس کی وجہ سے ان پر آسمان کو گرپڑنا چاہیے ۔ اور زمین کو پھٹ جانا چاہیے ۔ یہ ہے کہ انہوں نے باوجود عہد ومواثیق کیا للہ کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تذلیل کی ۔ اور اپنے طرز عمل سے سخت نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا ۔ حالانکہ کہتے یہ تھے ۔ کہ اگر ہمارے پاس کوئی نذیر آیا ۔ تو اس کا بڑھ کر خیرمقدم کریں گے ۔ اور تمام لوگوں سے زیادہ ہدایت حاصل کرینگے پھر صرف محرومی اور انکار پر بس نہیں کی ۔ کہ یہ ان کی شقاوت کے لئے کافی تھا ۔ بلکہ ازراہ کبر وغرور اس نوع کی مساعی بھی اختیار کیں جن سے حضور کو نقصان پہنچے ۔ اور اسلام کا علم سرنگوں ہوجائے ۔ فرمایا یہ لوگ اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ بری تدبیریں اور فریب کاریاں بالآخر انہی لوگوں کو گھیر لیں گی ۔ اور ان کی زندگی کو اجیرن کردیں گی ۔ ان لوگوں کو سنت اللہ کا انتظار ہے ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ اللہ کے قانون کے نفاذ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی *۔ یہ یاد رہے کہ سنت اللہ کا اطلاق قرآن میں صرف قانون تعذیب پر ہوتا ہے ۔ اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ مکافات احتمال کے ضابطے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ ہر قوم اور ہرگز وہ جب اللہ کے احکام کو ٹھکرا دے اور ان کی تذلیل کرے ۔ تو فطرت کی طرف لازم ہوجاتا ہے ۔ کہ ان کو وان کے اس طرز عمل کی سزا دے اور دوسروں کے لئے عبرت وموعظت کا سامان پیدا کرے *۔ حل لغات :۔ جھد ایمانھم ۔ پکی قسمیں * مکروالسئی ۔ بری تدبیر ۔ فریب کاری * لسنت اللہ ۔ سنت اللہ کے منے راہ ورش اور عادت کے ہیں ۔ سنت اللہ سے مراد ہے اللہ کا قانون مکافات اس لفظ میں یہاں استعمال کے لحاظ سے وہ عموم نہیں ہے ۔ جو بعض لوگوں نے سمجھ رکھا ہے *۔