سورة فاطر - آیت 8

أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا جس شخص کی بد اعمالیاں اس کے لئے خوشنما (٦) بنا دی گئی ہوں، پس وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے (اس شخص کے مانند ہوسکتا ہے جس کے اندر یہ صفت نہ ہو) پس بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، پس آپ ان کے حال پر افسوس کرکے اپنی جان نہ دے دیجیے، بے شک اللہ ان کے کارناموں کو خوب جاننے والا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

شیطان کی حسین کمندیں ف 1: جس طرح دنیا کی سعادت کے لئے یہ ضروری ہے ۔ کہ دوستوں اور دشمنوں میں امتیاز کیا جائے ۔ اسی طرح فلاح اخروی کے لئے ناگزیر ہے ۔ کہ شیطان کو اپنا دشمن سمجھاجائے ۔ اور اس کے متعلق محکم یقین ہو ۔ کہ وہ دوستی اور خیر خواہی کا کبھی ارادہ نہیں کرے گا ۔ اس کی تمام چالیں محض اس لئے ہونگی ۔ کہ کسی طرح اس کا گروہ الگ پیدا ہوجائے ۔ اور ان سب کو وہ جہنم کا کندا بنا دے ۔ اور اسی رطح وہ مخلوق خدا سے انتقام لے کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرے ۔ یہ یاد رہے کہ شیطان کبھی براہ راست حملہ نہیں کرتا ۔ کبھی جرات کے ساتھ گمراہی کی جانب دعوت نہیں دیتا ۔ اور کبھی کھلم کھلا مقابلے میں نہیں آتا ۔ بلکہ وہ نہایت حسین حسین کمندیں لے کر بڑھتا ہے ۔ چاندی اور سونے کی زنجریں پہناتا ہے ۔ اور خفیہ خفیہ دل کی چھاؤنی پر چھا جاتا ہے ۔ اس کے پاس انسان کو پھانسنے کے لئے ۔ بےشمار خوبصورت ذریعے ہیں ۔ وہ مال ودولت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ۔ وہ عزت وجاہ کا تاج لے کر آتا ہے ۔ وہ بیوی بچوں کی محبت بن کر پاؤں پکڑ لیتا ہے ۔ اور اس طرح نامحسوس طریق سے حق کی منزل سے دور پھینک دیتا ہے ۔ اس لئے سالک راہ محبت کے لئے ضروری ہے ۔ کہ وہ وقت نظرکا مالک ہو ۔ اور جانتا ہو کہ کن کن راہوں سے مخالف حملہ آور ہوگا ۔ اس کو خواہشات پر سخت نگرانی کرنا ہوگی ۔ اور دل کے خیالات پر پہرہ بٹھانا ہوگا *۔ ف 2: فرمایا کہ مرد مومن جو ایمان کی بہرہ مندی کے ساتھ دولت اعمال سے بھی مالا مال ہے ۔ اور وہ جو برائی کی ظاہری سج دھج کے متاثر ہوکر گناہوں میں گرفتار ہوگیا ۔ برابر نہیں ہیں ۔ یہ اللہ کا دین ہے جس کو چاہے ہدایت کی توفیق دے اور جس کو چاہے اس نعمت سے محروم رکھے ۔ اے پیغمبر ! آپ مخموم نہ ہوں ۔ اور ان کے گناہوں پر تکلف والم کو محسوس نہ کریں ۔ کیونکہ انہوں نے خود کوتاہی نظر کے باعث اس گمراہی کو پسند کیا ہے ۔ اور یہ چاہتے ہیں کہ کفر ہی کی حالت میں ہمیشہ رہیں ۔ معلوم ہوا ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لوگوں کی گمراہی سے روحانی اذیت محسوس ہوتی تھی اور آپ یہ نہیں چاہتے تھے ، کہ ایک نفس بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہے ۔ اور جہنم میں جائے ۔ آپ کی بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ بنی نوع انسان کو گناہوں کی تاریکی سے نکال کر صداقت کی روشنی میں لے آئیں ۔ حل لغات :۔ حسرات ۔ حسرۃ کی جمع ہے ۔ بمعنے افسوس ۔ پشیمانی *۔