وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَن يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ وَقَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ مُّفْتَرًى ۚ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور جب ان کے سامنے ہماری صریح آیتوں کی تلاوت (٣٤) کی جاتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ یہ آدمی تمہیں صرف ان معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی تمہارے آباؤ اجداد پرستش کیا کرتے تھے، اور یہ بھی کہتے تھے کہ یہ آیتیں اللہ پر افترا پردازی کے سوا کچھ نہیں ہیں، اور جن لوگوں نے ان کے پاس حق آجانے کے بعد اس کا انکار کردیا تھا، انہوں نے کہا کہ یہ کھلے جادو کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے
تقلید آباء قرآن حکیم اپنے مطالب کی وضاحت میں اور دلائل کے استحکام میں بےنظیر کتاب ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اس درجہ تابان اور روشن ہے کہ اس میں شک وشبہ قطعاً راہ نہیں پاسکتا ۔ بالخصوص ان لوگوں کے لئے جنہوں نے یہ معجزہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو کہ کیونکر ایک شخص چالیس سال کی عمر کے بعد الہام کا دعویٰ کرتا ہے اور یکایک فلسفہ وحکمت کے دریا بہانے لگتا ہے ۔ وہ جو کتاب پیش کرتا ہے شیریں ہے ۔ اس کی تعلیم دل میں اترجانے والی ہے ۔ اور خواب عفلت سے چونکا دینے والی ہے ۔ اس کا انداز بیان بالکل نرالا اور اچھوتا ہے اس کو پیش کرنے والا صادق القول اور صحیح العقل ہے اس کا چہرہ سچائی کے نور سے چراغ کی طرح روشن ہے ۔ ان لوگوں کے لئے جنہوں نے یہ ساری کیفیتیں بچشم خود دیکھی ہوں ۔ بالکل مجال انکار نہیں ۔ کیا بات تھی کیوں ان لوگوں نے اس پیغام کو نہ مانا ۔ اور حق وصداقت کو ٹھکرادیا ۔ کیوں ان لوگوں نے کھلی گمراہی کو ترجیح دی ۔ اور اس روشنی کی طرف سے آنکھیں موند لیں ۔ کیا اس لئے کہ ان کے دلوں میں کچھ معقول شکوک تھے اور ان کے ازالہ کی کوشش نہیں کی گئی ؟ یا اس لئے کہ اسلامی تعلیمات کی عظمت نے انہیں مرعوب نہیں کیا ؟ قصہ صرف اتنا ہے کہ تقلید آباد کا پرانا جذبہ دلوں میں کافرما تھا ۔ دل نہیں چاہتا تھا ۔ کہ صدیوں کے تعلقات عقیدت کو اسلام کی وجہ سے خیرباد کہہ دیں ۔ او یہ تسلیم کرلیں ۔ کہ ان کے اباؤ اجداد بالکل جاہل تھے ۔ اور حق کی روشنی سے محروم ۔ پرانے عقیدے اور پرانی رسمیں چھوڑ دینا ان کے لئے ناممکن تھیں ۔ یہ لمبے جان تنوں کی پوجا ری تھے ۔ بوسیدہ اور کھوکھلی ہڈیاں پر عظمت تھیں قبروں کی طرف ان کی نگاہیں تھیں ۔ کہ ہمارے باپ دادا اور قدیم علماء ان سے باہر آکر ہم کو دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبول کرلینے کی اجازت دیں ۔ اس لئے بالطبع ان حالات میں اسلامی تعلیم ان کے لئے قابل نہیں تھی ۔ حل لغات :۔ اذک ۔ جھوٹ ۔ سخر یعنی باعتبہ دائر کے جارہ ہے ۔ مغثار دسواں حصہ ۔ وما یبدی الباحل وما یعید باطل (معبود) نہ تو پہلی بار پیدا کرسکتا ہے اور نہ دوبارہ پیدا کرے گا * محاورہ ہے یعنی باطل واب مفید ہے اور آئندہ *۔