قُلْ أَرُونِيَ الَّذِينَ أَلْحَقْتُم بِهِ شُرَكَاءَ ۖ كَلَّا ۚ بَلْ هُوَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
آپ کہیے کہ ذرا مجھے دکھاؤ (٢٣) تو سہی وہ معبود جنہیں تم نے اس کا شریک بنا رکھا ہے، ہرگز اس کا کوئی شریک نہیں ہے، بلکہ وہ صرف اللہ ہے جو زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے
حقیقت ثانیہ حضور کو مخاطب فرمایا ہے اور کہا ہے ۔ کہ ان لوگوں سے پوچھئے جو ماسوا میں الجھے ہوئے ہیں ۔ اور شرافت انسانی سے قطع نظر کرکے کائنات کے حقیر مظاہر کے سامنے جھکتے ہیں ۔ کہ تمہیں آسمانوں اور زمین سے کوئی روزی عطا کرتا ہے ؟ یعنی یہ ابروباد کا انتظام کس کے ہاتھ میں ہے ۔ کون پانی سے لدی ہوئی ہوائیں بھیجتا ہے اور کون مردہ کھیتوں کو ہرا بھرا اور شاداب بنادیتا ہے ؟ کون انگوریاں ۔ غلہ اور چارہ پیدا کرتا ہے ؟ فرمایا : کہ اس سوال کا جواب سوائے اسکے کیا ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ کا اختیار میں ہے ۔ گیا یہ جواب اتنا سچا اور وقیت پر مبنی ہے ۔ کہ کوئی شخص اس سے اختلاف نہیں کرے گا * اس کے بعد فرمایا : کہ اس حقیقت ثانیہ کے بعد اب تمہیں غور کرنا چاہیے ۔ کہ ہم دونوں میں سے کون راہ راست پر گامزن ہے اور کون گمراہ ہے کون صداقت شعار ہے اور کون اصنام پرستی میں مبتلا ۔ کون اس خدا کو مانتا ہے جو حقیقی اور سچا رازق ہے اور کون ان بتوں کی پرستش کرتا ہے ۔ جن کا رزق کی کشائش اور تنگی میں کوئی دخل نہیں * آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں چند لفظی اور معنوی صنائع ہیں ۔ جن کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور وہ یہ ہیں :۔ (1) انداز بیان ایسا اختیار کیا گیا ہے جو مشرکین کو بھڑکانہ دے اور غور تامل پر مجبور کردے ۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ ہم دونوں میں سے ایک ضرور راہ صادق وصاف پر گامزن ہے اور دوسرا گمراہ ہے *۔ (2) تعلے ھدی کہہ کر گویا یہ بتادیا ہے ۔ کہ ہمارا راہ راست پر ہونا زیادہ قرین عقل ہے *۔ (3) ہدایت کے لئے علیٰ کا لفظ اور ضلال کے لئے فی استعمال کرنا یہ بھی ہی مصلحت سے ہے ۔ کہ توحید کی راہ طلوع و رفعت کی راہ ہے اور شرکت کی راہ گمراہی اور پستی کی *۔ (4) آؤ حرف تردید ہے ۔ جس کے معنے ہیں کہ حق وصداقت اور گمراہی میں کوئی تیسری راہ نہیں ہے ۔ ہر شخص کے متعلق بس دو ہی نقطہ نگاہ ہوسکتے ہیں ۔ یا تو وہ صحیح مسلک پر قائم رہے یا گمراہ *