وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزا (١٥) چکھائیں گے، شاید کہ وہ اپنے رب کی طرف رجوع کریں
ایمان کی مخالفت فسق وفجور ہے ف 1: مومن کے مقابلہ میں فاسق کو رکھا ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ مومن اور فاسق درجہ میں برابر نہیں ہیں ۔ اس لئے کہ قرآن اس حقیقت کو پیش کرنا چاہتا ہے ۔ کہ دنیا میں اگر نیکی اور تقویٰ کی روح پھیل سکتی ہے تو صرف ایمان سے یہ تسلیم کرلینے سے کہ اس کائنات کو پیدا کرنے والا ایک احکم الحاکمین خدا ہے ۔ اور موت کے بعد محاسبہ قطعی ہوگا ۔ اور ظالم سے ظالموں کی نسبت باز پرس کی جائے گی ۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے آخری رسول ہیں ۔ اور ان کا پیغام آخری پیغام ہے اگر ان حقائق کو تسلیم نہ کیا جائے ۔ تو انسان میں کبھی سچی ذمہ داری کا احساس پیدا نہیں ہوسکتا اور کبھی وہ صحیح معنوں میں اپنے دل میں تقوی اور پاکبازی کے جذبات بلند کو نہیں پاسکتا ممکن ہے دہریت سائنس کو ارتفاء بخشے ۔ مادیت کو فروغ دے ۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ اس انکار سے اخلاق حسنہ کی تعمیر ہوسکے ۔ روح ترقی کے منازل طے کرسکے ۔ باطن صاف ستھرا اور پاکیزہ ہوسکے ۔ کیونکہ اخلاق کے ارتقاء اور روحانیت کی بلندی کے لئے جن عناصر کی ضرورت ہے ۔ وہ دہریت میں قطعی مفقود ہیں ۔ آج یورپ میں کیا کچھ نہیں ہے ۔ قوت ہے ۔ علم وحکمت ہے ۔ دولت ہے ۔ اور ہر قسم کی آسودگی مہیا ہے جو مادی دنیا میں متصور ہوسکتی ہے ۔ مگر اس سارے شور ترقی اور غوفائے ارتقاء میں کہیں ذرہ بھر اخلاق کا پتہ نہیں ملتا ؟ وہ اخلاق نہیں جسے ایٹی کیٹ (فوائد رسمیہ) سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ظاہری نشست وبرخاست کے قاعدے اور قوانین نہیں ۔ بلکہ وہ پاکیزگی ۔ تقوی ۔ اللہ کا ڈر ۔ عفاف صداقت شعاری اور ایسی چیزیں جن کی طرف ایمان بالخصوص دعوت دیتا ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ اس برق وہوا کی دنیا میں ان چیزوں کا کہیں شائبہ تک نہیں ۔ کیونکہ یہ لوگ ایمان کو چھوڑ چکے ہیں ۔ اندریں حالات فسق وفجور کا ارتکاب لازم ہے ۔ ایمان سے دوری اور بعد کا منطقی نتیجہ خصفاں وبدکرداری ہے *۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح یہ لوگ اعمال کے لحاظ سے برابر نہیں ہوسکتے ۔ جو لوگ ایمان کی نعمت سے بہرہ ور ہیں ۔ جن کے دل روشن ہیں ۔ اور خدا کی نظر میں نیک اور پارسا ہیں ۔ وہ جنت میں مہمانی کے لطف اٹھائیں گے ۔ اور حسین اعمال کی حسین ترین جزاکو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔ اور جو فاسق ہیں ۔ جن کے دل کفر کی وجہ سے تاریک ہیں جو صداقت سے محروم ہیں ۔ ان کا ٹھکانا آگ ہے ۔ وہ گھرا کر اس سے نکلنے کی کوشش کریں گے ۔ مگر کامیاب نہ ہوں گے ۔ ان سے کہا جائے گا ۔ کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ اس کے مزے چکھو ۔ اور مزید براں تمہیں دنیا میں بھی فسق وفجور کی سزا مل کرر ہے گی ۔ اور اس بڑے عذاب سے پہلے پہلے تم اس قریب کے عذاب کو بھی دیکھ لو گے ۔ فطرت کی گرفت سے بچنا محال ہے ۔ اس دنیا میں خوب سمجھ سوچ لو اور عارضی لذات کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب کو اختیار نہ کرو *۔ حل لغات :۔ نزلا ۔ مہمانی ۔ جنت کی نعمتوں کو ضیافت کے ساتھ اس لئے تعبیر کیا ہے کہ مہمان کی خاطر داری زیادہ کی جاتی ہے ۔ گویا اہل جنت تکلفات اور آسودگی کے لحاظ سے یوں رہیں گے جس طرح مہمان * دون ال عذاب الاکبر ۔ دون کے معنے سیوا کے بھی ہوتے اور درے اور پہلے کے بھی ۔ یہاں دوسرے معنے مراد ہیں یعنی عذاب اکبر سے قبل *۔ حل لغات : منتقمون ۔ انتقام کے معنے عربی میں سزا دینے کے ہیں ۔ انتقام کے لئے نہیں ۔ کیونکہ اللہ کی ذات کو گناہوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا کہ وہ اس نقصان اور خسارے کا بدلہ لے ۔ البتہ یہ گناہ خود انسانوں کو ضرور نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کو ان کی پاداش میں وہ سزا دیتا ہے *۔