سورة لقمان - آیت 18

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور لوگوں سے اپنا چہرہ پھیر کر (١١) بات نہ کر، اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک اللہ ہر اس شخص کو پسند نہیں کرتا ہے جو اکڑ کر چلنے والا، فخر کرنے والا ہوتا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: چونکہ حضرت لقمان کی خواہش یہ ہے کہ ان کا بیٹا ہر طو پر زیور اخلاق سے آراستہ ہو ۔ اور صحیح معنوں میں وہ لوگوں میں صداقت کو پھیلا سکے ۔ اس لئے آخری میں اس کو یہ بھی بتایا ہے ۔ کہ عام بول چال میں ایسا نہ ہو ۔ کہ لوگ تم میں کبرونخوت کے خیالات کو محسوس کریں چال ڈھال میں میانہ روی اختیار کرنا ۔ نہ تو اتنا آہستہ آہستہ اور اکڑ کر چلنا ۔ کہ غرور ٹپکے ۔ اور نہ اتنا جلدی جلدی کر متالت و وقار کے منافی ہو ۔ آواز کو بھی پست رکھنا لازم ہے ۔ گدھے کی طرح اونچی آواز برترین آواز اور سراسر انسانی علم وقار کے خلاف بلکہ انسانیت کے منافی ہے *۔ ف 2: مکے والے بہت زیادہ جاہل اور کج بحث تھے ۔ چنانچہ ان آیتوں میں یہی بتایا ہے کہ اگر تم کائنات پر بنظر تعمق غور کرو ۔ اور سوچو تو تمہیں معلوم ہوگا ۔ کہ آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کو اللہ نے تمہارے لئے مسخر کردیا ہے ۔ اور تمہیں ہر نوع کی نعمتوں سے نوازا ہے جو ظاہر بھی ہیں ۔ اور باطن بھی مگر تم ہو کہ ابھی تک اللہ کی نعمتوں کو نہیں مانتے ۔ اور بتوں کے سامنے جھکتے ہو ۔ خدا نے توہ ساری کائنات کو تمہارے قبضہ واختیار میں دے دیا ہے ۔ کہ اس سے استفادہ کرو ۔ لیکن تم نے ان میں سے بعض کی پرستش شروع کردی ۔ نوٹ : اس سے آگے صفحہ پر (ف 1) ملاحظہ فرماویں * حل لغات :۔ تصعو ۔ تصعیر سے مشتق ہے ۔ غرور سے منہ پھیر لینا ۔ یعنی بےتوجہی یا تنکیر سے پیش آنا * حا ۔ غیر موزوں نشاط ۔ حد سے زیادہ خوش ہونا * مختال ۔ مغرور ۔ متکبر * مخور ۔ نہایت ناز کرنا ، اترانا * واقصد ۔ قصد سے مشتق ہے ۔ میانہ روی ۔ اعتدال *۔