وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور رسول بنا کر بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گا (جو ان سے کہے گا کہ) میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے اکر آیا ہوں، وہ یہ کہ میں مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤ گا، پھر اس میں پھونک ماروں گا، تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ ہوجائے گا، اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے کو، اور برص والے کو ٹھیک کردوں گا، اور مردوں کو زندہ کردوں گا، اور جو کچھ تم کھاتے ہو، اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، ان کی تمہیں خبر دوں گا، اگر تم ایمان والے ہو تو اس میں تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔
حضرت مسیح (علیہ السلام) کا عہد رسالت : (ف ١) یہودیوں میں جب حضرت مسیح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ، اس وقت ان کی حالت نہایت بگڑ چکی تھی ، ان میں مادیت کے جراثیم بری طرح سرایت کرچکے تھے اور سرمایہ کا حصول ان کی زندگی کا سب سے بڑا نصب العین تھا ، وہ دنیا میں سب سے زیادہ مال دار تھے ، اور چاہتے تھے کہ دنیا بھر کے ذخائر وخزائن ان کے پاس جمع رہیں اور ساری دنیا ان کی محتاج ہو ، اس مادیت کے ساتھ ساتھ وہ مذہبیت کے دعوے دار بھی تھے چند رسوم وظواہر کے سوا ان کے پاس اور کچھ نہ تھا ، روحانیت اور اخلاق حمیدہ سے وہ کوسوں دور تھے ۔ اس لئے ان کے ہاں مسیح (علیہ السلام) ایسے روحانی شخص کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان کی مادیت کے طلسم کو توڑ دے اور انہیں یقین دلادے کہ ایک قوت مادہ سے وراء اور بلند بھی ہے جس کے اختیارات زیادہ وسیع ہیں چنانچہ مسیح (علیہ السلام) نے انہیں چند معجزات وخوارق دکھائے جو مادیت کے قلعہ عقل وفلسفہ پرکاری ضرب کی حیثیت رکھتے ہیں ، پرندے بنائے ، مادرزاد اندھے اور کوڑھیوں کو شفا بخشی اور ان کو بتایا کہ تمہاری ضروریات اکل وشرب کے لئے کتنا کافی ہے اور کس قدر تم جمع کرتے ہو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے یہ روحانی کرشمے ان کی مادیت کا صحیح جواب تھے ، نقطہ نگاہ کی غلطی : وہ لوگ جو مسیح (علیہ السلام) کے معجزات کا انکار کرتے ہیں اس لئے کہ خیال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معاذ اللہ توہین ہوتی ہے ، انہیں ان آیات پر دیانتداری سے غور کرنا چاہئے اور صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن حکیم کے الفاظ کیا پیش کرتے ہیں ، اگر ان آیات کے الفاظ میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو تو پھر محض تمہاری محدود عقل جو قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتی ہے ، ہرگز قابل اعتنا نہیں ، ایک مسلمان کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن حکیم کے الفاظ کیا چاہتے ہیں اور ان کا سادے سے سادہ مطلب کیا ہے ؟ اس کے بعد وہ اپنے ذخیرہ علم کا جائزہ لے اور اس کی عقلی تحلیل کرے ۔ اور یہ کہنا کہ اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین کا پہلو نکلتا ہے ، غلط ذہنیت پر مبنی ہے یہ درست ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام فضائل وکمالات کے جامع ہیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مطلقا منصب نبوت کے آئینہ ہیں جس میں نبوت کے تمام کمالات کو بیک نظر دیکھا جا سکتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معجزات وخوارق دکھانے میں بھی سابق ماحول کے پابند ہیں ، حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ان معجزات کی نسبت باذن اللہ کہنا تمام شبہات کو دور کردیتا ہے ، اس لئے کہ خدا کی اجازت سے سب کچھ ہو سکتا ہے اور اس کے بعد اعتراض وتاویل کی قطعا ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ ترجمہ :