فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
تو ہم نے ان میں ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے پکڑ (٢٢) لیا، تو ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش کردی، اور بعض کو ایک زبردست چیخ نے آلیا اور بعض کو زمین میں دھنسا دیا اور بعض کو ہم نے ڈبودیا اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تھا
(ف 1) اس لئے ان حالات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا انتقام بھڑکا ۔ اور ان سب کو فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ بعض پر پتھر برسے اور بعض کو چیخ اور شدید آواز نے موت کی نیند سلادیا ۔ بعض زمین میں دھنس گئے ۔ اور بعض پانی میں ڈوب گئے ۔ اللہ عذاب کو پسند نہیں کرتا (ف 1) ﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ﴾ سے مقصود یہ ہے کہ اللہ کا عذاب اس طرح نہیں آتا کہ وہ یونہی بلا کسی عذر اور وجہ کے غیض وغضب سے بےتاب ہوجائے ۔ اور اپنے بندوں کو ہلاک کردے ۔ بلکہ ہوتا یہ ہے کہ جب بندے اس کی مہربانیوں کو ٹھکرادیتے ہیں ۔ اس کے پیغام محبت وشفقت کو نہیں مانتے ۔ جب وہ بلاتا ہے اور یہ اکڑتے ہیں ۔ جب وہ فضل وکرم سے نوازنا چاہتا ہے ۔ تو یہ اپنے لئے غضب اور ناراضگی کو پسند کرتے ہیں جب وہ جنت کے دروازوں کو وا کرتا ہے تو یہ جہنم کی طرف دوڑتے ہیں ۔ وہ انہیں باقی رکھنا چاہتا ہے ۔ اور یہ فنا کی طرف لپکتے ہیں ۔ اور جب وہ انہیں دنیا کی سرداری بخشنا چاہتا ہے ۔ تو یہ ذلت ورسوائی اختیار کرتے ہیں ۔ تو اس وقت اس کا قاعدہ ہے کہ ایسے ناشکروں اور نااہلوں سے زمین کو پاک کردیا جائے ۔ ورنہ اس سے زیادہ رحیم اور کون ہوسکتا ہے ؟ جس نے کہ ان کو پیدا کیا خلعت وجود بخشا ۔ زندگی عنایت کی ۔ اور کائنات کو ان کی خدمت پر مامور کردیا ۔ کیا یہ سارے انتظامات اس نے محض اس لئے کئے ہیں کہ اپنے بندوں کو یونہی غصہ میں آکر ہلاک کردے ۔ نہیں وہ قطعاً نہیں چاہتا کہ اس کے بندے فنا اور عذاب کی آغوش میں جائیں ۔ اسی لئے وہ پیغمبر بھیجتا ہے ۔ کتابیں نازل کرتا ہے ۔ معجزات اور خوارق سے ان کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتا ہے ۔ تاکہ وہ سمجھیں ۔ اور اللہ کے پیغام کو عقیدت سے سنیں ۔ اور دنیا وعقبی کی نعمتوں سے بہرہ وار ہوں ۔ مگر جب یہ لوگ باوجود از خواز اشہائے بےحد کی گمراہی پر قائم ہوں ۔ تو پھر سوائے ہلاکت کے اور کیا طرز عمل موزوں ہوسکتا ہے ۔ حل لغات : حَاصِبًا۔ حصباء سے ہے یعنی پتھروں کی بارش ۔