وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور اس کی مہربانی ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے ہیں تاکہ تم رات میں سکون حاصل کرو اور دن کے وقت اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم اس کاشکر ادا کرو
ایک واضح حقیقت ف 1: یہ بالکل سادہ اور واضح حقیقت ہے ۔ کہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ مگر اتنی سی بات بھی مشرکوں کے دماغ میں نہیں آتی ۔ اور وہ اس کے سوا دوسروں کو اپنا معبود بنالیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کائنأت کانظم ونسق ان کے ہاتھ میں ہے * ارشاد ہے کہ کیا تم نے کبھی اپنے معبودوں کی قوتوں کا جائزہ بھی لینے کی کوشش کی ! کیا کبھی تم نے سوچا ہے کہ وہ کن اختیارات کے مالک ہیں ؟ اور کیا ان کی بےچارگی اور عجز پر بھی تم نے نظر کی ، بتاؤ کہ اگر آفتاب اور ماہتاب کا پیدا کرنے والا خدا ان کو روک لے اور آفات کو غروب نہ ہونے دے ۔ تو پھر یہ تمہارے خدا اور تمہارے مزعومہ معبود کیا تمہارے لئے پر سکون رات کا بندوبست کرسکتے ہیں ؟ یہ تو اس کی رحمت ونوازش ہے کہ اس نے لیل ونہار کے ادوار کو باقی رکھا ۔ تاکہ رات کو تم آرام کرو اور دن بھر کی تکان دور کرو ۔ اور دن میں معاش ڈھونڈو مگر تم ہو کہ ان حقائق پر غور نہیں کرتے ۔ اور نہ اللہ کی نعمتوں کا شکرادا کرتے ہو ۔ ولتبتغوا من فضلہ ۔ کہہ کر اس حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ مال ودولت کا حصول تقویٰ اور پرہیز گاری کے منافی نہیں ۔ بلکہ اللہ کے فضل کا اکتساب ہے ۔ افلاس فی نفسہ اسلامی نقطہ نگاہ سے کوئی بہتر چیز نہیں ہے ۔ بلکہ بعض حالات میں نہایت مذموم ہے ۔ ہاں طبیعت کی مسکنت اللہ کو پسند ہے ۔ اور کبروغرور ناپسند ممکن ہے کہ ایک دولت مند آدمی طبیعت کا نہایت غریب ہو اور ایک مفلس ونادار بہت متکبر اور مغرور ہو ۔ اس لئے اصل چیز اخلاق کے باب میں توانگری اور افلاس نہیں ۔ بلکہ دل کا غنا اور دل کی مسکنت ہے *