وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ
اور آپ کا رب بستیوں کو اس وقت تک نہیں ہلاک (٣٠) کرتا، جب تک ان کے مرکزی شہروں میں ایک رسول نہیں بھیج دیتا جو ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ہم انہی بستیوں کو ہلاک کرتے ہیں جن کے رہنے والے ظالم ہوتے ہیں
ابتلا اور عذاب میں منطقی فرق ف 1: آیت کا مطلب بالکل واضح ہے ۔ کہ عذاب الٰہی سے پیشتر تمام حجت کے طور پر انبیاء کا آنا ضروری ہے ۔ مگر بعض اہل زیغ نے اس کے معنے یہ سمجھے ہیں ۔ کہ ہر مصیبت اور ہر بتلاء سے قبل لازمی ہے کہ ایک پیغمبر فرض کرلیاجائے ۔ اور اس مصیبت یا ابتلاء کو اس کے انکار کا نتیجہ ٹھہرایا جائے ۔ اس مفہوم کے پیش کردنے میں ایک دھوکہ یہ بھی ہے ۔ کہ ہر مصیبت کو عذاب کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ ان دونوں میں منطقی لحاظ سے عموم وخصوص مطلق ہے یعنی ہر عذاب تو یقینا مصیبت ہے مگر ہر مصیبت عذاب نہیں ۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ نیک بندوں کے لئے بمنزلہ آزمائش کے ہو ۔ اور بس * فی امھا رسولا سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء ہمیشہ مرکزی شہروں میں آتے ہیں دیہات میں نہیں * الا واھلھا ظالمون سے مراد یہ ہے کہ عذاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک کہ ظلم اور عصیاں کثرت سے نہ پھیل جائے * حل لغات : القریٰ۔ قریب کی جمع ہے شہر گاؤں پستی *