وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرِي فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّي صَرْحًا لَّعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ
اور فرعون نے کہا (١٩) اے اہل دربار، میں نے اپنے سوا تم لوگوں کا اور کوئی معبود نہیں جانا ہے پس اے ہامان، اینٹیں پکواؤ اور میرے لیے ایک اونچی عمارت بنواؤ تاکہ میں ٠ اس پر چڑھ کر) موسیٰ کے معبود کو دیکھ سکوں اور میں تو اسے جھوٹا ہی سمجھتا ہوں
حق وصداقت کا ایک انوکھا معیار ف 1: ان آیات میں اس بات کا ذکر ہے ۔ کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب خوشخبریوں اور معجزوں سے مسلح ہوکر فرعون کے پاس پہنچے ۔ تو انہوں نے کہا ۔ کہ یہ سب جادو اور کرشمہ سازی ہے ۔ اور یہ تمہارا پیغام توحید وتجرید تو ہماری سمجھ میں آتا نہیں ۔ ہم نے کبھی اپنے باپ دادا سے اس قسم کی باتیں نہیں سنیں ۔ گویا حق وصداقت کا یہ بھی ایک معیار ہے ۔ کہ فرعون کے باپ دادا یا اس کے اکابر اس سے آشنا ہوں حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ قدیم اعتراض ہے ۔ جو اہل نصروعصیان کی جانب سے ہمیشہ پیش کیا جاتا رہا ہے چنانچہ جب بھی اللہ کے پیغمبروں اور رسول آئے ۔ اور انہوں نے لوگوں کو راہ راست کی جانب بلایا تو انہوں نے بھی اعتراض پیش کردیا کہ جناب ہمارے آباؤ اجداد تو اس طرح کی باتوں سے آگاہ نہ تھے ۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا ۔ تم ہم کو جھوٹا سمجھتے ہو ۔ مگر اللہ ہماری صداقت پر گواہ ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کون حق اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے ۔ اور کون عاقبت کے لحاظ سے کامیاب ہے ۔ پھر انہ لا یفلح الظالمون کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ کہ اگر ہم جادو کر ہیں اور جھوٹے ہیں ۔ تو ہم کو کامیابی میسر نہیں ہوگی ۔ اور ہمیشہ اپنے مشن میں ناکام اور غائب وخاشر رہیں گے *۔