وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اور خوشخبری (46) دے دیجیے ان ان لوگوں کو جو ایمان (47) لائے اور عمل صالح کیا، کہ ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں (48) جاری ہوں گی، جب جب ان باغات میں سے کوئی پھل (49) کھانے کو دیا جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی (پھل) ہے جو ہمیں اس کے قبل کھانے کو دیا گیا تھا اور ان کو ایسی روزی دی جائے گی، جو ایک دوسرے سے متشابہ ہوگی، اور ان کے لیے ان میں پاکیزہ بیویاں (50) ہوں گی، اور وہ لوگ جنتوں (51) میں ہمیشہ ہمیش کے لیے رہیں گے
جنت (ف ١) ودوزخ کی حقیقت : جس طرح دنیا میں دو جماعتیں ہیں ، ایک ماننے اور عمل کرنے والی ، دوسری انکار کرنے والی اور فسق وفجور میں مبتلا رہنے والی ۔ اسی طرح اللہ کی رضا اور غضب کے دو مقام ہیں ، دوزخ یا جہنم نام ہے کے مقام غضب وجلال کا اور جنت کہتے ہیں اس کی رضا ومحبت کے مظہر اتم کو ۔ چونکہ انسان روح ومادہ سے مرکب حقیقت کا نام ہے اور اس میں دونوں کے الگ الگ مقتضیات ہیں ‘ اس لئے ضروری ہے کہ سزا اور جزا میں دونوں چیزوں کا خیال رکھا جائے ، نہ صرف مادہ متاثر ہو اور نہ صرف روح منفعل ۔ قرآن حکیم نے اس نکتے کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے ، وہ کہتا ہے جہنم میں تمہارے جسم کو بھی ایذا دی جائے گی اور تمہاری روح کو بھی ، اسی طرح جنت میں صرف روحانی کوائف نہ ہوں گے ، بلکہ جسمانی لذائذبھی ہوں گے ، مگر پاکیزگی اور نزاکت کے ساتھ ، وہ تمام چیزین جو ہمارے لئے باعث سرور وعیش ہیں ‘ وہاں ملیں گی ، مگر اس طور پر کہ ہم نہ پہچان سکیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنت میں وہ کچھ ملے گا جسے ان کی آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا اور جن کے متعلق ان کانوں نے کچھ نہیں سنا اور اب تک وہ انسان کے دل میں بھی نہیں کھٹکا ، مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر ۔ ایک تمثیل : جنت کا ذکر کرکے یہ فرمایا ہے کہ یہ نعمتیں جو بیان کی گئی ہیں ان کی حقیقت اصل میں ایک حقیر مچھر سے بھی کم ہے مگر یہ کور باطن لوگ جنت کے لذائذ کو سن کر معترض ہوتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہی چیزیں تو ہم چاہتے ہیں مگر وہ لوگ جو اہل حق وصداقت ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے سمجھانے کے لئے ہے ، ورنہ جنت کے کوائف نہایت لطیف ‘ پاکیزہ اور بالا از حواس ہیں ۔ سورۃ مدثر میں اہل جہنم کا ذکر کرکے بالکل انہیں کلمات کو دہرایا ہے کہ یہ لوگ یہ چیزیں جہنم کے متعلق سن کر کہتے ۔ (آیت) ” ماذا اراداللہ بھذا مثلا “۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمثیل سے مراد جنت ودوزخ کے کوائف کی تمثیل ہے ، ورنہ سارے قرآن میں خدا تعالیٰ نے کہیں مچھر کا ذکر نہیں کیا اور ربط آیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے یہی معنے لئے جائیں ۔ واللہ اعلم ۔ حل لغات : جنت : جمع جنۃ ، باغ ۔ محفوظ ۔ خلدون ۔ جمع خالد ، ہمیشہ رہنے والا ۔ مادہ خلود بمعنی دوام ۔