أَمَّن يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَن يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
یاوہ اللہ بہتر ہے جو سمندر اور خشکی کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے اور جوہواؤں کو اپنی باران رحمت سے پہلے خوش خبری بناکربھیجتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی یہ کام کرتا ہے اور اللہ ان کے جھوٹے معبودوں سے برتر وبالا ہے۔
ف 1: چنانچہ ارشاد ہے ۔ بتاؤ کہ الوہیت اور خدائی کے لئے وہ ذات زیادہ موزوں ہے ۔ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا جس نے آسمان کی بلندیوں سے تمہارے لئے پانی نازل کیا ۔ اور نہایت عمدہ عمدہ باغ پیدا کئے ۔ جن کو تم سر سبز وشاداب نہیں کرسکتے تھے ۔ یا وہ خود اصنام خیالی جو تم نے بنا رکھے ہیں کہو وہ عقیدت اور نیازمندی کے لئے سزاوار ولائق ہے ۔ جس نے زمین کو جائے قرار بنایا ۔ اس میں نہریں رواں کیں اور اس کے استقرار کے لئے پہاڑ پیدا کئے ! اور دو دریاؤں میں بکمال حقیقت ایک قسم کی آڑ بنادی تاکہ آپس میں مختلط نہ ہونے پائیں ۔ ان میں ایک میٹھا ہے اور دوسرا کھاری یا تمہارے معبودان باطل ۔ قرآن پوچھتا ہے کہ آیا وہ ذات رحمت آیات عبادت اور بندگی کے لئے بہتر ہے جو بےقرار اور بےچین انسان کی دعاؤں کو سنتا ہے اور جس نے تمہیں اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے یا وہ ذات جس کو تم اپنے زعم میں خدا سمجھتے ہو ۔ فرماتے ہیں کہ سمندر اور جنگل کی تاریکیوں میں تمہاری کون راہ نمائی کرتا ہے ۔ اور ٹھنڈی ٹھنڈی فرحت ناک ہواؤں کو باران رحمت سے پہلے کون بھیجتا ہے *۔ مقصد یہ ہے کہ ان واقعات پر مبصرانہ نظر دوڑاؤ اور پھر دل کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھو کہ ان میں توحید کے چشمے بہتے ہیں ۔ یا شرک سایہ افگن ہے *۔ مشرکین مکہ سے قرآن حکیم کو یہ شکایت ہے ۔ بل ھم قوم یعدلون بل اکثرھم لایعلمون قلیلا ما تذکرون ۔ یہ لوگ ان تفصیلات کے باوجود عذاب اور کجروی کو پسند کرتے ہیں ان میں اکثر بےعلم اور جاہل ہیں اور بہت کم ہیں نصیحت پذیری کی استعداد ہے ۔ توحید کے بام ہند فراز اعلیٰ تک پہنچے کے لئے کوئی دقت نہیں صرف معدلت شعاری علم اور اثر پذیر دل کی ضرورت ہے