قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ ۗ آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے (٢١) کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور سلام ہو اس کے بندوں پر جنہیں اس نے اپنی رسالت کے لیے چن لیا، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ معبودان باطل جنہیں مشرکین اسی کا شریک بناتے ہیں۔
ف 1: افسوس ہے ۔ کہ آج کل بھی تقریباً یہی حالت رونما ہیں ۔ لوگوں میں یہ مرض سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ اور نوجوان اس شنیع افعال سے قطعاً شرم اور ندامت محسوس نہیں کرتے ۔ اور اب ان کے روز مرہ میں یہ چیز داخل ہوگئی ہے ۔ کہ وہ پاکباز نوجوانوں پر آوازے کستے ہیں ۔ اور مختلف مذاق کو روشن خیال سمجھتے ہیں ۔ یہ کس قدر شرم کا مقام ہے ۔ کہ جو بیماری قوموں کی ہلاکت وتباہی کا باعث ہے ۔ آج ہم اس بیماری پر فخر کر رہے ہیں ۔ ہماری مجلسوں میں ، کالجوں اور مدرسوں میں ۔ تربیت گاہوں اور مذہبی اداروں میں ہر وقت اس مدح کے چرچے رہتے ہیں ۔ گویا فضا بالکل شہوانی ہوچکی ہے ۔ اور وقت آگیا ہے ۔ کہ بدکاروں کی نسل دنیا سے مٹ جائے اور اس کی جگہ کوئی صالح اور نیک نسل لے ۔ کیونکہ اس مرض سے ہمیشہ تباہی پھیلتی ہے او گو آسمان سے پتھر کی بارش نہ ہو ۔ مگر نسلیں ضرور بیکار کم حوصلہ اور بزدل ہوجاتی ہیں ۔ اور یہ عذاب پتھراؤ سے زیادہ شدید اور ہولناک ہے ۔ کیونکہ اس میں تویہ ہونا ہے کہ قوم بالکل مٹ جاتی ہے ۔ اور اس کا وجوہ دوسری کے لئے باعث ہدایت نہیں ہوتا ۔ اور اس میں یہ ہوتا ہے ۔ کہ بظاہر زندہ رہتی ہے مگر روح اور عمل کے لحاظ سے بالکل مردہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے مجسم عذاب اور مجسم ہر آس و ناامیدی اس لئے ضرورت ہے کہ علما اور اکابر ملت حضرت لوط کی طرح میدان میں آئیں اور قوم میں اخلاق کی اصلاح کے لئے ٹھوس کام کریں ۔ اور اس سے ہرگز نہ شرمائیں کہ یہ کس نوع کا کام ہوگا ۔ جب ایک پیغمبر خاص اس مشن کی تکمیل کے لئے آسکتا ہے ۔ تو پھر اس سنت پر عمل کرنے سے علماء اور اکابر کیوں شرمائیں *۔