لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
مومنوں کے لیے مناسب نہیں کہ مومنوں کے بجائے کافروں کو دوست (24) بنائیں، اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، مگر یہ کہ ان کے شر سے بچنا مقصود ہو، اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے، اور اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔
کفار سے موالات : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ مسلمان کافروں سے موالات نہ کریں اور ہرگز کسی غیر کو لائق محبت نہ سمجھیں ، اس مضمون کو متعدد آیات میں واضح کیا گیا ہے ، (آیت) ” لایتخذوا بطانۃ من دونکم “۔ پھر یہ بھی فرمایا (آیت) ” ومن یتولھم منکم فانہ منھم “۔ اس آیت میں ارشاد ہے کہ (آیت) ” ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شیئ“۔ یعنی کفر سے دوستی ایمان سے ’ دشمنی کے مترادف ہے ، وہ جو اسلامی مفاد کو چھوڑ کر اور مسلمانوں سے رشتہ اخوت توڑ کر کفار سے تعلقات محبت استوار کرتا ہے ‘ وہ اسلام اور مسلمانوں کا غدار ہے اور ہرگز قابل اعتماد نہیں اور اس موالات میں کسی قوم وفرقہ کی تخصیص نہیں ، سارے کافر اسلام سے دشمنی رکھتے ہیں ، اور سچ اور جھوٹ میں کبھی اتحاد ممکن نہیں ، اگر رات اور دن ایک نہیں ہو سکتے تو ضرورت ہے کہ کفر اور اسلام میں بھی کوئی تعلق نہ ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان نہایت محتاط بن کر رہیں اور کسی طرح کے فریب کا شکار نہ ہوں یہی مطلب ہے ان الفاظ کا کہ (آیت) ” الا ان تتقوا منھم تقۃ “۔ البتہ ناگزیز معاشی وسیاسی تعلقات میں مضائقہ نہیں ، اسلام یہ نہیں چاہتا ہے کہ مسلمان کا کوئی حقیقی دوست نہیں ، اپنے مصالح کے لئے وہ مسلمانوں سے محبت کا اظہار کرتے ہیں ورنہ ان کے دل بغض وحسد سے معمور ہیں (آیت) ” وما تخفی صدورھم اکبر “۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ مسلمان نے اس سے تغافل برت کر سخت نقصان اٹھایا ہے ہمیشہ اغیار نے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ، اس لئے ضرورت تھی کہ اس حقیقت کا اظہار کردیا جائے ۔ وہ لوگ جو مخلصانہ مسلمانوں سے تعلقات رکھتے ہیں قرآن حکیم نے کھلے الفاظ میں ان کی تعریف کی ہے اور اپنے متعلقین کو تلقین کی ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا جائے ۔ حل لغات : اولیائ: حقیقی دوست ۔ نفسہ : یہاں اس کے معنی بذات خود کے ہیں ۔