فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ
جب قاصد سلیمان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا، کیا تم لوگ مجھے مال دینا چاہتے ہو، اللہ نے جو مجھے دیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے، بلکہ تم خود ہی اپنے ہدیہ پر خوش ہوتے رہو۔
حضرت سلیمان نے تحائف واپس کردیئے ! ف 2: اس آیت میں بلقیس نے عام بادشاہوں کی اور ملوک کی ذہنیت بیان کی ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ حدود مملکت کو وسیع کرنے میں کوشاں رہتے ہیں ۔ اور جب کسی ملک کو فتح کرلیتے ہیں تو پھر بڑی ابتری مچاتے ہیں ۔ وہاں کا نظام ایک قسم بدل دیتے ہیں اور روہاں کے معززین اور اکابرین ان انقلابات میں بس جاتے ہیں ۔ اس لئے یہ رائے تو درست نہیں کہ سلیمان کو یہاں آنے پر حملہ کرنے کا موقع دیا جائے ۔ البتہ کوئی تدبیر کرنی چاہیے ۔ چنانچہ اس نے وزراء سے کہا ۔ کہ بہتر ہوگا کہ اس کو یہاں کے تحفے تحائف بھیجے جائیں اگر اس نے ان کو قبول کرلیا ۔ تو معلوم ہوگا کہ وہ بہت زیادہ حریص نہیں ہے ! اور ایک فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اتنا پرجوش ہوجائے گا اور اگر اس نے انکار کردیا تو معلوم ہوگا کہ وہ جنگ پر آمادہ ہے * اس تجویز سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ سبا بہت عقل مند اور سمجھدار خاتون تھی حالانکہ وزراء نے کہا تھا کہ ہم بہت بہادر ہیں اور ہر طرح مرنے مارنے پر تیار ہیں مگر اس نے یہ مناسب نہ کیا *۔ ف 3: غرضیکہ تحفے تحائف بھیجے گئے ۔ لیکن حضرت سلیمان نے ان کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ بلقیس کا خیال تھا کہ سلیمان بھی دنیا کے عام بادشاہوں کی طرح ہوگا اور وہ ان تحائف کو دیکھ کر خوش ہوجائے گا ۔ اس طرح دوسلطنتوں میں سیاسی تعلقات سے زیادہ استوار ہوجائیں گے ۔ چونکہ حضرت سلیمان بادشاہ کے ساتھ پیغمبر بھی تھے اس لئے طبعاً دنیا اور دنیا کے املاک سے بےنیاز تھے انہوں نے جب دیکھا کہ ملکہ سبا نے اس کے پیغام کو نہیں سمجھا اور ان کو معمولی حریص اور دنیا دار بادشاہ خیال کیا ۔ تو غضب میں آگئے ۔ اور کہنے لگے ۔ تحائف واپس بھیج دو ہم ان پر حملہ کرینگے ۔ اور ہماری فوجیں ان کو وہاں سے نکال باہر کریں گی ۔ اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے پاس دنیوی قوت بھی ان سے کہیں زیادہ ہے *۔