طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ
طس۔ (١) یہ سورت قرآن اور ایک کھلی کتاب کی آیتیں ہیں۔
ف 1: ان آیات سے سورۃ نمل کا آغاز ہوتا ہے ۔ طٰسۤ حروف مقطعات میں سے ہے تفصیل آلمۤ کی بحث میں گزرچکی *۔ سورۃ کا آغاز قرآن کے تعارف سے ہوتا ہے ۔ ارشاد ہے کہ یہ قرآن اور کتاب مبین کی آئتیں ہیں * قرآن کے معنے اس کتاب کے ہیں جس کی کثرت سے قرات اور تلاوت ہو ۔ یہ مصدر بمعنی مفعول ہے *۔ غور فرمائیے ۔ انجیل کی اشاعت آج دنیا میں سب کتابوں سے زیادہ ہے ۔ دنیا کے ہر گوشے میں مشینری موجود ہیں اور ہر وہ زبان اور ہر قوم میں اس کو سرعت سے پھیلا رہے ہیں ۔ مگر وہ کتاب جس کی دن رات تلاوت ہوتی ہے ۔ صرف قرآن ہے * کتاب مبین سے غرض یہ ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے ۔ جس میں تمام ضروریات انسانی کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے اس میں کہیں بھی ابہام یا ایمال نہیں ہے ۔ ہر قسم کی فروگذشت اور اغلاط سے پاک ہے ۔ ہر شخص کے لئے موقع ہے ۔ کہ وہ اس کے انوار سے کسب ضو ہوسکے * ارشاد ہے کہ قرآن اور کتاب مبین ان لوگوں کی راہنمائی کے لئے ہے جو ایمان کی دولت سے بہرہ مند ہیں ۔ اور نماز وزکوٰۃ کے پابند ہیں ! اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں * ایمان بالآخرت کے متعلق فرمایا ، کہ اس کے بغیر دلوں میں خلوص اور نیکی کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا ۔ یہی عقیدہ ہے جو اعمال کو درست کردیا ہے اور ذمہ داری کا احساس پیدا کردیتا ہے ۔ اسی عقیدہ کی وجہ سے نیکی کی تحریک پیدا ہوتی ہے ۔ اور اسی کے طفیل انسان تمام برائیوں سے حقیقی طور پر نفرت کرنے لگتا ہے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہر عمل کی ذمہ داری سے ! اور محاسبہ طلب ہے ۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جبکہ سب لوگوں کو خدا کے حضور میں اکٹھا ہونا پڑیگا ۔ اور وہاں یقینا اعمال کی سخت باز پرس ہوگی * قرآن حکیم کہتا ہے جو لوگ آخرت ایمان نہیں رکھتے وہ نتائج کے لحاظ سے سخت گھٹے میں رہیں گے ان کے لئے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ دنیا میں خیروبرکت کا وافر ذخیرہ جمع کرسکیں اور اپنے لئے زاہ راہ کا سامان کرسکیں * یعنی قرآن حکیم کو جو آپ حاصل کرتے ہیں تو اللہ کے حضور سے قریب ترین موقع ومقام سے ۔ اس طرح کہ قلب سے تمام حجابات باطلہ اٹھ جائیں ۔ اور انوار لاہوت اس کو براہ راست مستیز بنادیں ۔ غرض یہ ہے کہ قرآن کا کلام الٰہی ہونا بالکل قطعی اور یقینی ہے ۔ اس میں کسی طرح بھی فریب نفس یا غلط فہمی کا دخل نہیں *