سورة الشعراء - آیت 95

وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور شیطان کے لشکر بھی (سبھی اس میں ڈال دیئے جائیں گے)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 3: گمراہوں اور مشرکوں سے کہا جائے گا ۔ کہ وہ تمہارے معبودوں میں باطل کہاں ہیں ۔ کیا آج وہ اس بےچارگی اور بےکسی میں تمہاری مدد کرسکتے ہیں ۔ اور تم کو جہنم کے عذاب سے بچا سکتے ہیں اور یا وہ خود کو اللہ کے غقضب سے اور غصہ سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ؟ لاکلام آج کسی شخص میں جرات نہیں ۔ کہ اس کے غیظ وغضب کا سامنا کرسکے ۔ آج تمام معبود ان باطل کو ان کے عقیدتمندوں کے ساتھ جہنم میں اوندھے منہ گرادیا جائے گا ۔ اور تمام ابلیسی لشکر آگ میں جھونک دیا جائے ۔ آج وہ لوگ معلوم کریں گے کہ یہ بت پرستی محض فریب نفس کی ترنگیاں تھیں ۔ ورنہ حاکم وقار اور مختار وقادر ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ۔ یہ لوگ اس وقت اپنے مقتداؤں اور گمراہ معبودوں سے کہیں گے کہ واللہ ہم نے تم کو خدا کا شریک قرار دے کر سخت غلطی کا ارتکاب کیا ۔ یقینا ہم گمراہ ہوگئے ۔ اور ہماری گمراہی کا موجب یہ ہمارے پر معاصی پیشوا ہی ہیں ۔ یعنی وہ بڑے بڑے مذہبی جرائم پیشہ لوگ ۔ جنہوں کے توحید کی روشنی سے ہمیں ہمیشہ بیگانہ رکھا ۔ اور یہ حالت ہے ۔ کہ ان مدعیان طریقت میں سے کوئی شخص جرات سفارش نہیں کرتا ۔ وہ لوگ جو دنیا میں ہم کو تسلیاں دیتے تھے ۔ اور اپنے کو نجات ومخلصی کا اجار دار سمجھتے تھے ۔ اور وہ جو اپنے اور اپنے مریدوں کے سوا سب کو جہنمی قرار دیتے تھے ۔ آج خود عذاب الٰہی کا شکار ہیں ۔ اور ان کی زبانیں گنگ ہیں ۔ ان سے اتنا بھی تو نہیں ہوسکتا ۔ کہ اپنے عقیدت مندوں اور نیاز مندوں کی طرف سے کچھ کہہ سن لیں ۔ دوستی اور آشنائی کے تمام تعلقات منقطع ہیں ۔ یہ لوگ اس وقت اس خواہش کا اظہار کریں لے ۔ اگر اب ہمیں دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے ۔ تو ہم پکے مومن ثابت ہوں گے ۔ ارشاد ہے ۔ کہ اب اس سے مانگی اعمال کی صورت میں ان کو حقیقت حال کا احساس ہونا محض بےکار ہے ۔ اور اس پورے قصہ میں عبرت وتذکیر کی ایک بہت بڑی نشانی ہے ۔ مگر ان لوگوں کے لئے جو دولت ایمان سے بہرہ ور ہیں ۔ یہ مشرکین مکہ ان کوائف کو سن کر بھی اسلام کی سچائیوں کا اعتراف نہیں کرتے ۔ اور ان کے دلوں سے تبدیلی اور اصلاح کی استعداد یکسر مفقود ہوچکی ہے *۔ جنود ۔ جند کی جمع ہے ۔ معنے لشکروگروہ ومددگار *۔