سورة البقرة - آیت 22

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جس نے زمین کو تمہارے لیے فرش (42) اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا جس کے ذریعہ اس نے مختلف قسم کے پھل نکالے، تمہارے لیے روزی کے طور پر، پس تم اللہ کا شریک (43) اور مقابل نہ ٹھہراؤ، حالانکہ تم جانتے ہو (کہ اس کا کوئی مقابل نہیں)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انعام گنائے ہیں اور توجہ دلائی ہے غافل انسان کو یہ کہ وہ زمین کی طرف دیکھے کس قدر آرام دہ ہے آسمان کی طرف نظر دوڑائے کیونکہ چھت کی طرح ہم پر سایہ فگن ہے ۔ آسمان کی طرف سے پانی پرستا ہے اور ہمارے روکھے سوکھے باغ لہلہا اٹھتے ہیں اور اثمار ونتائم کا انبار لگ جاتا ہے ، کیا یہ نعمتیں ایک خدا کی طرف سے نہیں ؟ قرآن حکیم روزہ مرہ کے مشاہدات کی طرف ہماری توجہ مبذول کرتا ہے ، اور قیمتی نتائج پیدا کردیتا ہے ، وہ کہتا ہے ، ان سب چیزوں کو بنظر غور وتعمق دیکھو ، ایک خدا کی خدائی کس طرح واضح اور بین طور پر نظر آ رہی ہے ، قرآن حکیم کا اصرار ہے کہ اس کی پیش گاہ جلالت میں کوئی دوسرا خدا نہ ہو ، مسلمان کے دل میں صرف اسی کی محبت ہو ۔ وہ صرف اسی رب اکبر سے ڈرے اور اپنی حاجتوں کو اسی سے وابستہ سمجھے ، وہ توحید کا پیغام ہے ۔ وحدہ کے سوا کوئی کسی دوسری چیز پر مطمئن نہیں اس کے ہاں شرک کائنات انسانیت کے لئے بدترین لعنت ہے ۔ لاجواب کتاب : یوں تو خدا کے کلام کو لاجواب ہونا ہی چاہئے مگر قرآن حکیم بالتخصیص بےنظیر ہے ، اس وقت جبکہ عرب کا بچہ بچہ شاعر تھا ۔ خطابت تکلم پر ان کو ناز تھا ، اس وقت قرآن حکیم نازل ہوتا ہے اور اس تحدی کے ساتھ کہ یہ قطعا انسانی کلام نہیں ہمت ہے تو اس کا مقابلہ کر دیکھو ، مگر تیرہ صدیاں گزر جاتی ہیں اب تک جواب تو کیا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ ہی نہیں کیا گیا ، عربوں کی غیرت وحمیت مشہور ہے ، مگر قرآن حکیم کی اس تحدی کے بعد ان کی گردنیں جھک گئیں اور وہ جو مخالف تھے وہ بھی کہہ اٹھے ۔ ان لہ لحلاوۃ وان علیہ الطلاوۃ وان اصلہ لمغدق وان اعلاہ لمثر ۔ کہ قرآن کیا ہے عسل وشرینی کا مجموعہ ہے ۔ الفاظ میں تازگی اور جمال ہے ۔ نہایت پر مغز اور نتیجہ آفرین کلام ہے ۔ قرآن کا دوسرا دعوی یہ تھا کہ انسانی ہمتیں ایسا نہ کرسکیں گی ۔ چنانچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسا نہ ہوسکا ، قرآن تیئس سال کی مدت میں نازل ہوا اور ان کو موقع دیا گیا کہ وہ آسانی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں ، مگر تاریخ شاہد ہے ، قرآن کے زور فصاحت کے سامنے زبانیں طمنگ ہوگئیں ۔ یہ قرآن کا بےنظیر معجزہ ہے جو قیامت تک قائم رہے گا ، قرآن لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ایسی پر مغز ، حکیمانہ ، قابل عمل ، فصیح وبلیغ کتاب لکھیں جو اس کی ہم پایہ ہو سکے ، جو ایسی شیریں ‘ بااثر اور پرکیف ہو ، جو اسی طرح قوموں کو بدل دینے کی قدرت رکھتی ہو ، جو انقلاب آفرین ہو ۔ جو ہر حالت میں پڑھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہو جس میں صحیح معنوں میں رہنمائی کی تمام قوتیں رکھ دی گئی ہوں ، جس کا تعلق زمانہ اور زماضیات سے نہ ہو ، ہر وقت ہر زمانے میں ہر قوم کے لئے یکساں قابل ہو ۔ زبان کی قید نہیں ۔ وقت کا خیال نہیں ۔ صرف ایک شخص کو مقابلہ کے لئے نہیں بلایا گیا ، سب مل کر کسی زبان میں قیامت تک کوئی کتاب لکھیں جو اس درجہ بلند اور سحر آفرین ہو ، کتنا بڑا ، کتنا عظیم الشان اور حیران کن دعوی ہے ، کیا دنیا اس کا جواب دے گی ؟ (آیت) ” ولن تفعلوا ۔ حل لغات : اخرج ۔ ماضی مصدر اخراج مادہ خروج ، نکالا ، ثمرات ، واحد ثمرۃ ۔ پھل ، اندادا ۔ جمع ند ، شریک وسہیم ، ندیدا اور ند دونوں کا ایک ہی معنی ہے ۔ شھدآء ۔ جمع شھید ، ساتھی دوست ، مددگار ، رفیق ، وقود ، ایندھن جس سے آگ جلائی جائے ۔ حجارۃ ۔ پتھر ۔