سورة الشعراء - آیت 34

قَالَ لِلْمَلَإِ حَوْلَهُ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

فرعون نے اپنے اردگرد موجود سرداروں سے کہا (١٣) یہ تو یقینا بڑا ماہر جادوگر ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جادوگروں سے مقابلہ ف 1: فرعون نے جب موسیٰ کے معجزات کو دیکھا ۔ تو اپنے ہالی موالی سے کہنے لگا ۔ یہ تو بہت سمجھ دار جادوگر ہے ۔ اور چاہتا ہے کہ تم کو بسحر وجادو کے زور سے تمہارے ملک سے نکال دے ۔ اور بنی اسرائیل کو مصر کی حکومت سونپ دے ۔ یہ انقلاب پسند اور باغی ہے ۔ کہو تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا ۔ حضور ان دونوں کو چند مہلت دیجئے اور اس اثنا میں شہروں سے اور دیہات میں کارندے دوڑا دیجئے ۔ تاکہ وہ تمام بڑے بڑے جادوگروں کو لے آئیں ۔ فرعون کو یہ تجویز پسند آئی ۔ اس کے ملک کے ہر گوشہ سے جادو گر بلائے ۔ اور ایک دن مقابلے کے لئے مقرر کیا ۔ تمام لوگوں میں اعلان کے ذریعے مشتہر کردیا گیا ۔ کہ سب اکٹھے ہوں ۔ اور مقابلہ دیکھیں ۔ تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں ۔ تو ہم سب ان کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں *۔ چنانچہ جب فرعون کے پاس جادوگر آگئے ۔ تو کہنے لگے ۔ حضور اگر ہم غالب آگئے ۔ اور موسیٰ وہارون کو شکست دے دی ۔ تو کیا ہم کو انعام بھی ملے گا ؟ فرعون نے کہا ۔ ہاں تمہیں انعام بھی دیا جائے گا ۔ اور مقربین میں بھی شمار ہوگا * حضرت موسیٰ نے جادوگروں سے مخاطب ہوکر کہا ۔ کہ تم جس کرشمہ سازی کا اظہار کرنا چاہتے ہو کرو ۔ تمہیں میری طرف سے اختیار ہے ۔ انہوں نے لاٹھیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں ۔ اور وہ دیکھنے والوں کو سانپ کی شکل میں نظر آنے لگیں ۔ کہنے لگے ۔ کہ ہم فرعون کے اقبال اور قوت کی برکت سے یقینا غالب رہیں گے ۔ اس پر حضرت موسیٰ جوش میں آگئے ۔ اور آپ نے اپنی لاٹھی جو زمین پر ڈالی ۔ تو وہ اژدھا بن گئی ۔ اور ان تمام چھوٹے چھوٹے سانپوں کو نگل گئی ۔ جادوگر جو سمجھ دار تھے ۔ اور اپنی فنی قوتوں سے آگاہ تھے ۔ فوراً پہچان گئے ۔ کہ یہ جادو یا کرشمہ سازی نہیں ۔ یہ اللہ کی حکمت ہے ۔ اور اس کی قدرت ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اس معجزہ کو دیکھ کر فوراً کہہ دیا ۔ کہ ہم نے ہتھیار ڈال دئیے ۔ ہم رب العالممین کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اور موسیٰ وہارون کے خدا کو مانتے ہیں *۔ معلوم ہوتا ہے ۔ حضرت موسیٰ کے زمانے میں جادو اور سحر کا بہت زیادہ رواج تھا ۔ اس لئے آپ کے مچجزات کو بھی جادو سمجھے ۔ اور اسی لئے حضرت موسیٰ کو اس نوع کے دلائل سے نوازا گیا ۔ تاکہ وہ قوم کو یقین دلاسکیں ۔ کہ وہ اللہ کی جانب سے ہیں *۔ معجزہ اور سحر میں باریک اور دقیق فرق یہ ہے کہ سحر وہ علم ہے جس کو ہر شخص سیکھ سکتا ہے ۔ اور جس کے اثر سے جو تحول وانقلاب پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے اسباب وذرائع معلوم ہوسکتے ہیں ۔ مگر معجزہ اللہ کے تقرب خاص کی نشانی ہے ۔ اور ہر شخص کے بس کا نہیں ۔ اکتساب سے حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اور اس کے ذریعے سے جو انقلاب یا تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔ اس کے اسباب وذرائع کو معلوم کرلینا انسانی وسعت وطاقت سے باہر ہے ۔ معجزاب کو وہ لوگ خوب جان سکتے ہیں جو خود جادوگرہوں ۔ اور فن تحویل وتصرف سے آگاہ ہوں *