نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ
اسی نے آپ پر برحق کتاب (3) اتاری ہے، جو اگلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، اور اسی نے تورات و انجیل کو نازل کیا
قرآن مصدق ہے : (ف ٣) نزول قرآن کے وقت متعدد صحائف موجود تھے جن کے متعلق خیال تھا کہ یہ الہامی ہیں ، قرآن حکیم جب نازل ہوا ہے طبعا یہ سوال اٹھا کہ قرآن کریم کی حیثیت کیا ہے ؟ فرمایا کہ یہ پہلی تمام کتابوں کا جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں ‘ مصدق ہے ۔ تصدیق کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ جس قدر سچائیاں اور صداقتیں پہلے موجود ہیں ، قرآن حکیم ان کا بکمال وسعت قلبی اعتراف کرتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ توریت وانجیل کو بالکل تخریف ونصیحت سے مبرا مانتا ہے تصدیق صحیح اور درست کتاب کی ہے نہ اغلاط وتخریفات کی ، جیسا کہ قرآن حکیم کے دوسرے مواضع سے صاف ظاہر ہے ، وہ باوجود تصدیق کے ان کے غلط عقائد پر انہیں متنبہ کرتا ہے اور سختی کے ساتھ ٹوکتا ہے اور برملا کہتا ہے کہ (آیت) ” لقد کفرالذین قالوا ان اللہ ثالث ثلثۃ “۔ یعنی جہاں تک پیغام کی روح اور مغز کا تعلق ہے ۔ وہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے ، اس میں کبھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اسی وجہ سے ہر الہامی کتاب کا فرض ہے کہ اس روح و رانحہ کی تائید کرے ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ توراۃ وانجیل کے انجیل کے نزول کے بعد بھی روح انسانی تشنہ فیض تھی کہ وہ حسب وعدہ ایک مکمل شریعت سے بہرہ ور ہو ، یہ تشنگی اور ضرورت مسیح (علیہ السلام) کے ان الفاظ سے واضح ہے کہ ” دیکھو دنیا کا سردار آتا ہے “ ۔ اور یہ کہ ” میں بعض چیزیں تمہیں نہیں بتلاتا ، مگر وہ روح تمہیں سب کچھ بتائے گی ، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ میں تیرے بھائیوں میں سے تجھ جیسا ایک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نازل کروں گا ، حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنی ایک زبور میں اس سرخ وسفید شاہ عرب کے انتظار میں عزل سرا ہیں ۔ دانیال (علیہ السلام) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک مکاشفے میں دیکھتے ہیں اور یسعیاہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کتاب میں اس قدوسی کی تعریف ہے ‘ جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت ہے اور جس کی فتوحات روحانی سمندروں تک پھیل جائیں گی ، قرآن حکیم کہتا ہے میں مصدق ہوں ، یعنی ان تمام وعدوں ، امیدوں اور تمناؤں کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں ۔ تصدیق کا لفظ ان معنوں میں ادبیات عربی میں بکثرت مستعمل ہے ۔ ایک شاعر چند شاہسواروں کے متعلق کہتا ہے ۔ ع فوارس صدقت فیھم ظنونی : یعنی ان لوگوں نے میری تمام امیدوں کو پورا کردیا ۔ حل لغات : اصرا : بوجھ ۔ مولی : کارساز ۔