وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا
اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے ہیں اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے ہیں اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ اپنے گناہوں کا بدلہ پائے گا۔
عبادالرحمن ف 1: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عبادالرحمن کی صفات بتائی ہیں ۔ یعنی وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کے صحیح معنوں میں بندے ہیں ۔ اور ان کو رحمن کی غلامی اور نیاز مندی کا فخر حاصل ہے ۔ ارشاد ہے کہ وہ دنیا میں ظلم ومعصیت سے علو وبرتری نہیں چاہتے ۔ نہایت نرم اور مریخاں مریخ ہوتے ہیں ۔ عجزوانکساری کا یہ عالم ہے کہ چلتے ہیں تو ہولے ہولے ، وقار اور حشمت کے باوجود ان میں شیخی اور گھمنڈ نہیں ہوتا ۔ متانت اور سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہیں او اپنے وقت کی قیمت کو پہنچانتے ہیں ۔ وہ ان لوگوں سے خوب آگاہ ہوتے ہیں ۔ جن میں جہالت ہوتی ہے ۔ اس لئے جہاں ایسے لوگوں سابقہ پڑتا ہے تو سلام کہہ کر گزرجاتے ہیں ۔ ان لوگوں کے دلوں میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے جذبات موجزن ہوتے ہیں ۔ اور ان کا شعار ہوتا ہے کہ رات کی تاریکیوں میں اللہ کے ذکر سے کسب انوار کرتے ہیں اور رات کا اکثر حصہ سجود وقیام میں گزار دیتے ہیں ۔ مگر اپنی عبادت پر انہیں ناز نہیں ہوتا ۔ ہر وقت خرماں اور ترساں رہتے ہیں ۔ اور عذاب خدا سے پناہ رہتے ہیں *۔ ان کے مزاج میں توازن واعتدال کا مادہ ہوتا ہے ۔ یہ لوگ جب اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔ تو بےدریغ ہوتے ہیں ۔ ہاں معصیت کے کام میں ایک حبہ بھی خرچ نہیں کرتے ۔ اور نہ یہ حقوق اللہ میں خرچ کرنے سے کوتاہی کرتے یا دل میں کوئی تنگی یا عنیق محسوس کرتے ہوں ۔ توحید کے قائل اور یہ واضح رہے کہ اللہ کی راہ میں سب کچھ لٹا دینا بھی اسراف نہیں مگر معصیت اور گناہ کی راہ میں ایک پائی بھی اٹھا دینا اسراف ہے ۔ اس لئے لم یسرفوا ولم یقتروا کے معنے یہی ہوں گے ۔ جو ہم نے بیان کئے ہیں ۔ عباد الرحمن میں ایک وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ توحید کے قاتل اور حقوق العباد میں بہت زیادہ محتاط ہوتے ہیں ۔ ان سے قتل وغارنگری کے واقعات ظہور پذیر نہیں ہوتے ۔ اور نہ یہ کہ وہ دولت عقاف وعصمت سے محروم ہیں ۔ وہ انتہا درجے کے پاکباز ہوتے ہیں * غور فرمائیے کہ اللہ کے بندوں میں کیا کیا خوبیاں ہوتی ہیں ۔ اور اللہ کا بندہ ہونا کن صفات پر موقوف ہے * کیا وہ پیشہ ور لوگ جو انتہا درجے کے مغرور اور ضدی ہوتے ہیں ۔ جن کی راتیں مے نوشی اور بدمستیوں میں گزرتی ہیں ۔ جو عذاب الٰہی سے قطعاً بےخوف ہوتے ہیں ۔ اور جلب منفعت جن کا مقصد ہوتا ہے ۔ جو خدا کے سوا قبروں اور مزاروں کو معبودجانتے ہیں ۔ اور ادنی فرد علی اختلاف پر قتل وغارت گری پرآمادہ ہوجاتے ہیں ۔ زنا اور بدمعاشیوں سے جن کو عار نہیں ۔ کیا اللہ کے نیک بندے اس کے محبوب ہوسکتے ہیں ؟ کیا اس قماش کے لوگ ولایت اور عبودیت کے مقام بلند پر فائز ہوسکتے ہیں ؟ اور کیا ان لوگوں کے ہاتھ میں قوم کی باگ ڈور دینا سود مند ہوسکتا ہے ؟