سورة الفرقان - آیت 2

الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ اللہ جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے (٢) اور جس نے اپنی کوئی اولاد نہیں بنائی ہے اور جس کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے پھر اسے اس کی عین غرض و غایت کے مطابق بنایا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اشتراکیت اور اسلامی تخیل ملک : (ف ٢) شرک اور بت پرستی کی تردید ہے ، ارشاد ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے پھر اس کو بیٹوں کی کیا ضرورت ہے ؟ اور کون ہے جو اس کے اختیارات میں دخل اندازی کرسکے ، اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے ، اور ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کردیا ہے ۔ اشتراکیت کا موجودہ تخیل اگر غور کیا جائے تو اس آیت کی رو سے درست نہیں ، کیونکہ اشتراکیت کے معنے یہ ہیں ، کہ تمام املاک کو حکومت کا ملک قرار دیا جائے ، حالانکہ ہر چیز کا مالک خدا ہے اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور اسی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ان کو مناسب اور موزوں طریقوں سے اپنے بندوں میں تقسیم کردے ۔ یہ خدا کی ملک اور اس کے قبضہ و اختیار میں ہے ۔ مداخلت کرنے والے کون ہیں ؟ اصل میں یہی وہ مقام ہے جہاں سے اشتراکیت اور اسلام دو جدا جدا راہیں پیدا ہوتی ہیں ۔ اس باب میں دونوں متفق ہیں کہ کوئی شخص تنہا کسی چیز کا مالک نہیں ۔ اس لیے جمہوریت یا حکومت اس کی مالک ہے اور اسلام کہتا ہے کہ صرف اللہ مالک ہے ۔ لہ ملک السموات والارض اور ہماری حیثیت محض امین کی ہے براہ راست مجاز نہیں کہ اپنے اختیارات کو بروئے کار سکیں ہم اللہ کی ہدایات کے منتظر ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ، اپنی دولت کو تقسیم کرتا ہے ۔ چنانچہ قرآن حکیم نے دولت اور املاک کی اتنی بہتر تقسیم فرمائی ہے کہ اس کے بعد اشتراکیت کے لئے مسلمان کے قلب میں کوئی جگہ نہیں رہتی ۔