لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
کوئی حرج کی بات نہیں، نہ اندھے (٣٦) کے لیے اور نہ لنگڑے کے لیے اور نہ بیمار کے لیے اور نہ خود تمہارے لیے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ کے گھروں سے، یا اپنی ماؤں کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچا کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا ان گھروں سے جن کی چابیاں تمہارے اختیار میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے، کوئی حرج نہیں کہ تم سب ملکر کھاؤ یا الگ الگ کھاؤ، پس جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کہو، جو اللہ کی جانب سے مبارک اور پاکیزہ سلام ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیتوں کو اسی طرح بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو۔
آداب طعام : (ف ١) بات یہ تھی کہ بعض لوگ دوسرے کے ہاں کھانا کھانے سے بربنائے خودداری پرہیز کرتے تھے ، یا ان کا یہ خیال تھا کہ شاید اس طرح بےتکلفی سے دوسرے کے ہاں کھانے سے تقوی ودیانت کی خلاف ورزی ہوگی ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ہاں کھانے پینے میں کوئی ہرج نہیں ، (آیت) ” لیس علی الاعمی حرج “۔ الخ مقصود یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ اس قابل نہیں ہوتے کہ آزادی کے ساتھ کسی کے ساتھ شریک طعام ہو سکیں ، اس لئے ان کو کسی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں تکلف ہونا تھا ، قرآن حکیم کہتا ہے ، ان لوگوں کے ساتھ کھانا جو اپنے اور قریبی ہیں ، برا نہیں ، اور شرعا اس میں کوئی حرج نہیں ، یا ہوسکتا ہے کہ دوسروں کو ان کے ساتھ شریک طعام ہونے میں اعتراض ہو اور اس اعتراض کو اس آیت میں دور کیا گیا ہو ، اس صورت میں علی بمعنی فی ہوگا (آیت) ” ان تاکلوا جمیعا او اشتاتا “۔ عربوں میں رواج تھا کہ وہ تنہا خوری کو معیوب سمجھتے تھے ، چنانچہ بنی لیث بن عمرو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ لوگ اس وقت تک بھوکے رہتے جب تک کہ کوئی مہمان ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھاتا ۔ انصار کا بھی یہی طریقہ تھا ، وہ بھی انتہا درجے کے مہمان نواز تھے قرآن حکیم نے اس آیت میں ان لوگوں کو اجازت دی کہ وہ جس طرح چاہیں ، کھا سکتے ہیں ، چاہے اکٹھا مہمانوں کے ساتھ کھائیں ، اور چاہے الگ کھائیں ، اور مہمان کو الگ بھیج دیں ، دونوں صورتیں جائز ہیں ۔ حل لغات : بیوت : جمع بیت ، بمعنے گھر ، عمتکم ، عمہ کی جمع ہے بمعنے پھوپھی ، اخوالکم : جمع خال ، ماموں ، خلتکم : واحد خالۃ ، معنے مشہور ہیں ، ماں کی سگی بہن ، اشتاتا : شت ۔ اشتات کی جمع ہے ، متفرق الگ الگ ۔