سورة النور - آیت 47

وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور (منافقین) کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان (٢٨) لے آئے ہیں اور ہم نے اطاعت قبول کرلی ہے پھر اس کے بعد ان میں کا ایک گروہ منہ پھیر لیتا ہے اور وہ لوگ کبھی ایمان والے تھے ہی نہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

منافقین کے جذبہ اطاعت کی حقیقت : (ف ٢) ان آیات میں منافقین کی ذہنیت کا آشکارا کیا ہے ارشاد ہے کہ ظاہر میں تو یہ لوگ اسلام کے فضائل ومحاسن کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم مومن ہیں ، اور اللہ و رسول کے مطیع ومنقاد ہیں ، مگر حقیقت میں یہ مومن نہیں ، ان میں سرکشی اور تمرد کا مادہ ہنوز موجود ہے ، چنانچہ جب ان سے کسی معاملہ میں کہا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان لو اور اس کے فیصلوں کے سامنے جھک جاؤ ان میں سے بعض لوگ روگردانی کرتے ہیں ، اور آپ کو اپنے معاملہ میں حکم ماننے کے لئے تیار نہ ہوں گے ، ہاں اگر انہیں یہ یقین ہوجائے ، کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا ، اور ہمیں کچھ دلایا جائے گا ، تو پھر ان کی سرکشی اور انکار انقیاد واطاعت میں بدل جاتا ہے ، اور مخلصانہ طور پر اس وقت اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں آپ کو حکم قرار نہ دینے کی وجہ یہ ہے قرآن حکیم فرماتا ہے ، ان کے دل میں نفاق کا مرض ہے ، اور اسلام کے متعلق شکوک وشبہات ہیں ، اور انہیں ڈر ہے کہ کہیں آپ انکے مخالف فیصلہ صادر نہ فرما دیں ۔ بات یہ تھی کہ ایک منافق اور یہودی کے درمیان زمین کی بابت کچھ جھگڑا تھا یہودی کہتا تھا ، آؤ محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو منصف مان لیں ، وہ جو فیصلہ صادر فرمائیں گے ، ہمیں منظور ہوگا ، اور منافق کہتا تھا نہیں میں کعب بن اشرف کو حاکم مانتا ہوں ، (کیونکہ اسے معلوم تھا) کہ میں باطل پر ہوں ۔ اس لئے حضور میری رعایت نہیں کریں گے مگر بوجہ نفاق ودشمنی اس انصاف کو وہ یہودی کے سامنے ” حیف “ یعنی ظلم سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا کہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے ڈر ہے کہ وہ ناانصافی نہ کریں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، بلکہ یہ لوگ خود ظالم اور جھوٹے ہیں ، اور دل میں خبث اور کھوٹ ہے ، اس لئے اسلام پر اطمینان نہیں ، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بدگمان ہیں ، ورنہ کون ہے جو آپ کی صفت شعار اور عدل گستری کا انکار کرسکے ۔ (آیت) ” انی قلوبھم “۔ میں ہمزہ استفہام دراصل خیریت کے لئے ہے جس طرح جریر کہتا ہے ۔ السم خیر من رکب المطایا ۔ افشاء کے لئے نہیں ۔ کسی شخص کو قوت ایمان کا حال اس وقت معلوم ہوتا ہے ، جب کہ وہ ہر حالت اور ہر کیفیت میں اپنے کو اللہ اور اس کے رسول کے سپرد کردے ، اور کسی نفع اور نقصان کا خیال نہ کرے بلکہ یہ سمجھے کہ نفع کے معنی اللہ اطاعت اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کے ہیں ، اس لئے اگر اس محبت اور عقیدت میں جان بھی کھونا پڑے ، تو وہ یہی یقین رکھے کہ میں گھاٹے میں نہیں رہا ، ارشاد ہے کہ اس نوع کی اطاعت شعاری مومنین کا خاصہ ہے ، یہ بات منافقین میں نہیں پائی جا سکتی ، بلکہ یہی مقام امتیاز ہے اسی سے معلوم ہوتا ہے دولت ایمان کس کے پاس ہے ، اور کون محروم مومن کو جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ سمعنا واطعنا کہتا ہوا لپکتا ہے اور فوز وفلاح کو حاصل کرلیتا ہے ۔ حل لغات : مرض ، بیماری (یعنی نفاق) کہوہ بھی روح کے لئے بمنزلہ بیماری کے ہے ۔ جھد ایمانھم : محاورہ ہے جس کے معنی مضبوط اور مستحکم قسم کھانے کے ہیں ۔