إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے درمیان بدکاری (١١) رواج پائے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ کو سب کچھ معلوم ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے ہو۔
واقعہ افک منافقین کی انتہائی خباثت باطنی اور شقاوت قلبی کا مظاہرہ تھا ، اور اس میں بعض صحابہ بھی سادگی سے شریک ہوگئے تھے ۔ اور کئی صحابہ بشری لغزش سے عائشہ عفیفہ (رض) عنہا کے متعلق جھوٹے افسانوں سے دلچسپی لینے لگے ہر محفل اور ہر مجلس میں یہی چرچا اور یہی باتیں ہونے لگیں جس کی وجہ سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سخت اذیت اور قلبی کوفت محسوس کی اور بالآخر برات کے لئے یہ آیات نازل ہوئیں ، اور بہتان لگانے والوں کی پشت پر اسی اسی درے لگائے گئے اس سے صحابہ کی جماعت میں جو غلط فہمیاں پھیل رہی تھیں وہ تو رک گئیں مگر منافقین اس کے بعد بھی مزے لے لے کر اس قصہ کو بیان کرتے رہے ۔ قرآن کی اس آیت میں ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ خبردار جو تم نے اس جرم کا ارتکاب کیا ، یاد رکھو مسلمانوں میں بےحیائی کی باتوں کو پھیلانا بہت بڑی معصیت ہے ، اگر تم باز نہ آئے تو دنیا وعقبی میں تمہارے لئے المناک عذاب مقرر ہے ۔