الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
جو لوگ اپنے اموال (371) رات میں، اور دن میں، خفیہ طور پر، اور دکھلا کر خرچ کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ثابت ہے، اور ان پر نہ خوف طاری ہوگا، اور نہ انہیں کوئی غم لاحق ہوگا
(ف ١) امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اس سے مقصود ارباب خیل ہیں یعنی وہ لوگ جو جہاد کے لئے گھوڑے رکھتے ہیں اور دن رات ان کی خدمت کرتے ہیں ، تاکہ جہاد کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ، حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت جناب عثمان (رض) اور عبدالرحمن بن عوف (رض) کے حق میں نازل ہوئی ، اس لئے کہ انہوں نے جیش عسرت کی تیاری میں مدد دی ، مگر آیت کا مفہوم عام ہے ، اس میں ایک تو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ انفاق فی سبیل اللہ جن کی عادت ثانیہ ہوگیا ہے اور وہ مسلسل دن رات جب ضرورت محسوس ہو خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے ، اللہ کی حقیقی نعمتوں کے سزاوار ہیں اور یہ کہ اعلان واخفاء دونوں حالتوں میں ان کے دل میں ریا ، و شہرت کے جذبات نہیں ہوتے ، بلکہ دو طریق ہیں ادا کے ‘ جسے حالات کے موافق تصور کرنے میں اختیار کرتے ہیں ، اس لئے یہ بحث کہ دونوں طریقوں میں سے افضل کونسا طریق ہے غیر ضروری ہے بعض لوگ اخفاء کی صورت میں بھی ریاکاری کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض اتنے مخلص ہوتے ہیں کہ اعلان میں بھی ان کا دل ملوث نہیں ہوتا ۔ اس لئے اپنی اپنی طبیعت اور موقع ومحل پرموقوف ہے کبھی اخفاء افضل ہے اور کبھی اعلان ۔