سورة النور - آیت 5

إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

سوائے ان لوگوں کے جو اس گناہ کے بعد توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں، تو بیشک اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

عفیفہ عورت کو متہم کرنے کی سزا : (ف ١) ایک طرف قرآن نے زانی کی سزا اس قدر کڑی رکھی ہے کہ موجودہ مذاق کے لوگ اس کو تکلیف مالایطاق قرار دیتے ہیں ، اور دوسری طرف چار گواہوں کی شہادت ضروری بتائی ہے جن کا مہیا ہونا شاذو نادر ہی ہوسکتا ہے ، اس میں کیا حکمت ہے ؟ یہ ایک سوال ہے جو طبعا پیدا ہوتا ہے ۔ جواب یہ ہے کہ سزا اس لئے کڑی رکھی ہے ، تاکہ اس خبیث مرض کا کلیۃ انسداد ہوجائے ، چنانچہ آپ عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں دیکھئے گا کہ زنا کے واقعات دو تین سے زیادہ نہیں ملیں گے اور اس دور تہذیب جدید میں شاہد ہی چند آدمی ایسے مل سکیں ، جنہیں صحیح معنوں میں عفیف کہا جا سکتا ہے ۔ یہ ہیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا ۔ چار شاہدوں کا ہونا اثبات واقعہ کے لئے اس لئے لازم ہے کہ معاملہ ایک جان کا ہے ، ایک کی زندگی ختم ہونے کا ہے چنانچہ اس اہم واقعہ کے لئے معمولی شہادت ناکافی اور نامنصفانہ ہے ۔ اس آیت میں معامہ کی اہمیت کے پیش نظر گواہوں کو تنبیہ کردی ہے کہ اگر تم نے عفیف اور پاکباز عورتوں کو یونہی ختم کیا ، اور ثبوت میں عینی گواہ پیش نہ کرسکے ، تو حد قذف کیلئے تیار رہو ، تمہاری گواہی پر اسی درے مارے جائیں گے ، اس حد شرعی کے تعدر سے معلوم ہوا کہ اسلام کے نزدیک عورت کی عزت اور اس کا وقار کس درجہ قیمتی ہے ارشاد ہے کہ پرہیزگار عورتوں کو متہم کرنے والے لوگ فاسق مردود ہیں ، انہیں سزاد دو اور آئندہ کے لئے ان کی شہادت بھی قبول نہ کرو ۔